اگر ” نونہال ” بند ہوجاتا تو اتنا دکھ نہ ہوتا

محمد زبیر فرید،    ہفتہ 26 دسمبر 2020

اردوکے چاہنے والوں میں ماہنامہ ’’ہمدرد نونہال‘‘ سے کون واقف نہ ہوگا۔ تقریباً 70 سال سے اردو میں بچوں کے ادب کے افق پر جگمگاتا یہ رسالہ اردو زبان کی لغت سے کم حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ بعض اسکولوں نے تو اسے اپنی اردو کی کتاب کی جگہ نصاب میں بھی شامل کر رکھا تھا۔

شائستہ زبان، دلنشیں پیرایہ، عمدہ مضامین، منفرد کہانیاں، رنگین صفحات، دلچسپ سلسلے، سائنسی وتحقیقی تحریریں، جنگلی حیات کی معلومات اور بہت کچھ۔ ہر عمر کے افراد کےلیے دلچسپی کے حامل اس کے مستقل سلسلے، معلومات افزا، بلاعنوان کہانی، پھول پھول خوشبو، ہنسی گھر، بچوں کےلیے خاص طور پر نونہال خبرنامہ، ہنڈکلیا اور آدھی ملاقات جیسے عنوانات بچوں میں خوب مقبول رہے۔

اسی رسالے نے اردو ادب کو مستقبل میں کئی ادیب و دانشور فراہم کیے۔

یہ صحیح معنوں میں بچوں کا رسالہ ہے جس کے دیدہ زیب سرورق اور اکثر اشتہارات پر بھی بچوں ہی کی تصویر براجمان ہوتیں۔ ہمدرد نونہال کا ہر نیا شمارہ تحفے اور پرانا خزانے سے کم شمار نہ ہوتا۔ فی زمانہ اردو زبان کی خدمت، ترویج و اشاعت میں کردار ادا کرنے والوں کی خاصی تعداد اس سے وابستہ رہ چکی ہے۔

آپ کو تعجب ہوگا کہ یہاں ماضی کے الفاظ کیوں استعمال کیے جا رہے ہیں، حالاں کہ نونہال تو اب تک جاری ہے۔ یہی المیہ ہے کہ پرانا نونہال اب ’’مرحوم‘‘ ہوچکا ہے۔ گزرتے ایام کے ساتھ یہ رسالہ بھی حوادث زمانہ کا شکار ہوگیا۔

اب نونہال بچوں کے ہاتھوں سے نکل کر بڑوں کے ہاتھوں کھلونا بن چکا ہے۔ گزشتہ ماہِ اکتوبر سے اس کے آدھے حصے کو انگریزی زبان میں کردیا گیا ہے۔ انتہائی افسوس ناک ہے کہ اردو زبان کے قتل عام کا ایک اور راستہ کھل گیا ہے، وہ بھی اُس کے پاسبانوں کے ہاتھوں۔

پہلے پہل تو یقین نہ آیا کہ اردو کے جنازے کو مرحوم حکیم صاحب کا ہمدرد فاؤنڈیشن اپنا کندھا پیش کرے گا، مگر جب رسالہ ہاتھ آیا تو اعتبار کرنا ہی پڑا۔ شمارہ دیکھتے ہی قدرے اجنبیت کا احساس ہوا، وہ اپنائیت نہیں رہی۔ کچھ پرایا سا لگا۔

اگرچہ اردو کے 96 صفحات کی نسبت انگریزی زبان کےلیے صرف 64 صفحات رکھے گئے ہیں مگر ورق گردانی کے ساتھ ہی یہ تاثر نمایاں ہوجاتا ہے کہ اردو کے مقابلے میں انگریزی کو ترجیحی حیثیت دی گئی ہے۔ اس اختلاط سے اب رسالہ ’’آدھا تیتر، آدھا بٹیر‘‘ کا نمونہ بن گیا ہے۔

اللہ بہتر جانتا ہے کہ ادارے کو کن مسائل کا سامنا ہے اور کس چیز سے مجبور ہوکر، یا فائدہ دیکھ کر، یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔

نجانے اس طرح نصف حصے کو انگریزی کےلیے مختص کرکے ملغوبہ بنانے سے کیا مقصود ہے۔ اب تو یہ اپنے مقاصد سے ہی دور ہٹتا محسوس ہوتا ہے۔

چھان پھٹک کے بعد معلوم ہوا کہ رسالے کا ’’ٹھیکہ‘‘ ایک نجی ادارے کو دے دیا گیا ہے۔ (ہائے افسوس!)

اس گراں قدر رسالے کو شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید نے اپنے خون سے سینچا اور مسعود احمد برکاتی صاحب نے تاحیات خود کو اس کےلیے وقف کردیا۔

بچوں کے معروف ادیب اور علمی و ادبی شخصیت جناب سلیم مغل نے کچھ عرصہ ہوا اسے ابھی سنبھالا ہی تھا کہ ہمدرد کی پالیسی بدل گئی۔

راقم کے خیال میں اگر رسالہ بند ہوتا تو اتنا دکھ نہ ہوتا جتنا اس ناخوشگوار اور غیر مثبت تبدیلی سے ہوا ہے۔ شاید ایسے ہی اپنوں کے ہاتھوں فساد و بگاڑ دیکھ کر مرحوم رئیس امروہوی فرما گئے تھے:

کہہ دو نہ شکوہ لبِ مغموم سے نکلے
اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

بندہ سمجھتا ہے کہ اس موقع پر ہمدرد انتظامیہ کو حکیم صاحب کے سبق ’’جاگو جگاؤ‘‘ کو محض رسالے کا حصہ بنانے کے بجائے اسے عملی زندگی میں اپنانے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ کس رخ پر جا رہی ہے۔

وہ بھول رہے ہیں کہ حکیم صاحب کا مشن انگریزی نہیں، اردو زبان کی ترویج تھا۔ مانا کہ انہوں نے خود بھی انگریزی زبان میں تصنیفات کیں۔ ان کی سو سے زیادہ کتابیں اردو زبان میں ہیں جبکہ انگریزی میں کتب کی تعداد قلیل ہے، ان میں سے بھی کتنی ایسی ہیں جواردو سے ترجمہ کی گئی ہیں۔

وہ مشرقی روایات کے امین اور پاسدار تھے۔ برِصغیر میں ہمدرد کی گراں قدر کاوشیں اس امر پر شاہد ہیں۔

’’ہمدرد نونہال‘‘ اور ’’ہمدرد صحت‘‘ سے لے کر ’’نونہال ادب‘‘ اور ’’مدینۃ الحکمۃ‘‘ تک جابجا اس کی مثالیں موجود ہیں۔

یہ امر اس لحاظ سے بھی قابل تعجب ہے کہ جہاں ایک طرف لوگوں میں قومی زبان کی اہمیت کا شعور اجاگر ہونے لگا ہے، سماجی رابطوں کے ذرائع پر بھی اردو رسم الخط استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، ایسے میں نونہال کے ذمے داران کا یہ قدم نہایت غیر معقول اور غیر مستحسن ہے۔

اسے المیہ یا سانحہ نہ کہیں تو کیا نام دیں؟ اب جب کہ قوم اپنی زبان کو اہمیت دینے جا رہی ہے تو ہمارے ادارے اپنے مہمہ (مشن) سے منحرف ہورہے ہیں۔ انتظامیہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ادارہ ہمدرد کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ حکیم صاحب کا عطیہ کردہ قومی ورثہ ہے۔

ہمدرد کی انتظامیہ اگر اس کی نگہبانی سے قاصر ہے تو اسے چاہیے کہ دستبرداری کا اعلان کرے۔ اگر انگریزی زبان کا اتنا ہی غم سوار ہے تو انگریزی زبان میں علیحدہ سے رسالے کا اجرا کرے۔

درحقیقت یہ حکیم صاحب کی مہم سے روگردانی ہے۔ اگر انگریزی اور اردو کا یہ اختلاط اتنا ہی ضروری ہوتا تو حکیم صاحب اپنی حیات میں ضرور کرتے جب کہ وہ عالمی سطح کے رہنما تھے۔ انگریزی کی اہمیت ان سے زیادہ کون جانتا تھا۔

انسانی فطرت ہے کہ وہ تبدیلی کو رفتہ رفتہ قبول کر ہی لیتا ہے۔ عین ممکن ہے گٹ پٹ کے ماحول میں پروان چڑھنے والی نئی نسل اس رنگا رنگ تبدیلی کو قبول کرلے، مگر اردو زبان کی دلدادہ نسلِ قدیم ہرگز نہیں کرے گی؛ اور پھر سوال یہ ہے کہ علمی وادبی حلقوں میں ہمدرد اپنا کھویا ہوا مقام اور وقار کیوں کر بحال کرسکے گا؟

انتظامیہ کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے۔ کچھ نہیں تو حکیم صاحب کو عطا کردہ خطاب ’’شہیدِ پاکستان‘‘ ہی کی لاج رکھ لے اور اس بے ڈھنگے اختلاط سے پاکستان کی فکری اکائی اور بنیاد اردو زبان کےلیے ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے ’’ہمدرد نونہال‘‘ کا تشخص خراب نہ کرے۔

شیئر کریں