سیرت نبوی ﷺ​

حافظ فہیم احمد , بہاول پور

ہر ابتداء سے پہلے ہر انتہا کے بعد

ذات نبی بلند ہے ذات خدا کے بعد

دنیا میں احترام کے لائق ہیں جتنے لوگ

میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفیﷺکے بعد

اگر زمیں و آسمان کے چودہ طبق کاغذات بن جائیں ، دنیا کے تمام سمندر سیاہی بن جائیں ، پوری کائنات کے درخت قلم بن جائیں اور پوری کائنات کی تمام مخلو قات لکھنے والے کاتبین بن جائیں ۔ بحثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ کاغذات ختم ہو جائیں گے۔ سمندر سیاہی کے خشک ہو جائیں گے۔ قلمیں ٹوٹ پھوٹ جائیں گی اور لکھنے والے کاتبین تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے۔ مگر میرے مصطفی ﷺ کی شیرت کا پہلا پہلو بھی ختم نہیں ہو گا۔

نہ ہے تاب سخن مجھ کو نہ تحریر کا یارا                  میں ذرہ ہوں میرا موضوع ہے خورشید جہاں آرا

حامی بے کس ، ناصر بے دل ، والئی مضطر، یاور مخدوں ، امئی بطحا، خواجئہ گیہاں، جلوہ طراز عرش معلی کے حضور گدائے بے نوا کے چند ٹوٹے پھٹے الفاظ ہیں ۔ لہذا جہاں رشد کا سلسلہ ہو گا وہاں راشد کی بات بھی ہو گی۔ جہاں ہدایت کا قصہ ہو گا وہاں ہادی کا نام بھی ہو گا۔ جہاں سیرت کا تذکرہ ہو گا وہاں صاحب سیرت کا چرچا بھی ہو گا۔تاوقت رحمت اللعالمین کا اجمالی خاکہ پیش کیا جائےیا سیرت سرور کونین کی وضاحت کی جائے ناممکن ہے! کون رحمت اللعالمین؟ جس کو محمدﷺ بن عبداللہ کے بجائے محمد الرسول اللہ ﷺ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ وہ جو خالق کا بندہ بھی مخلوق کا مولا بھی ہے۔ صاحب قرآن بھی ہے حامل قرآن بھی ہے۔ اجمال بھی ہے تفصیل بھی ہے۔ طہبھی یسین بھی ہے۔ اسلام کا شاہکار بھی ہے اور حسن کا نکھار بھی ہے۔ مظہر خدا بھی ہے نور خدا بھی ہے۔ جلال خدا بھی ہے اور جمال خدا بھی ہے۔ اسماعیل کی ابتداء بھی ہے اور حسین کی انتہا بھی ہے۔ فخر انبیاء بھی ہے اور امام الا نبیاء بھی ہے۔ شافع محشر بھی ہے اور ساقئ کوثر بھی ہے۔

میرے حضورﷺ کی تشریف آوری سے پہلے مکہ میں ابوجہل کی حکومت تھی ۔ ہر طرف جہالت کا دور دورہ تھا۔ لوگ شراب عام پیتے تھے ۔ جوا عام کھیلتے تھے۔ امیر لو گ بیٹی کی پیدائش پر اسے زندہ درگور کر دیتے تھے اور غریب کی بیٹی کو زندہ رکھا جاتا تھا تاکہ وہ جوان ہو کر امراء کی حوس کو پور ا کر سکے ۔ عورتوں سے حیوانوں والا سلوک روارکھا جاتا تھا۔ کمزور کو کمزور تر کیا جاتا تھا۔ ہر طرف آتش پرستی و بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ الغرض انسانیت جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غلطاں تھی ۔ ایسے حالات میں ضرورت تھی ایک ایسے مصلح کی جو آکر پورے نظام کو بدل ڈالے ۔ چناچہ اللہ کریم کو اپنی مخلوق پہ ترس آیا اور رحمت خداوندی جوش میں آئی اور آمنہ کے لعل کی شکل میں ایک ہادئ بر حق کو مبعوث فرمایا۔

آپ ﷺ کی تشریف آوری سے دنیا کو رنگ لگ گیا۔ اجڑی دھرتی آباد ہو گئی ۔ عرب جہنم سے آزاد ہو گیا۔ آپ ﷺکی آمد سےبزدل بہادر بن گئے ۔ راہزن  رہبر بن گئے ، رذیل شریف بن گئے، مشرک مؤحد بن گئے۔ اور تین سو ساٹھ بتوں کے پجاری ایک اللہ کے درپے جھکتے نظر آئے۔یہ آپﷺکی سیرت عالیہ و طیبہ کی عظمت و برکت ہی تھی جس کے سائے تلے ابوبکر آئے تو صدیق بن گئے۔ عمر آئے تو فاروق بن گئے۔ عثمان آئے تو ذولنورین  بن گئے ۔ علی آئے تو حیدر کرار بن گئے ۔ خالد بن ولید آئے تو لشکر جرار اور سیف اللہ بن گئے۔ ابو ہریرہ آئے تو حافظ الحدیث بن گئے۔ اور بلال ائے تو مؤذن رسول ﷺبن گئے۔

جن لوگوں کو سیرت النبی ﷺ میسر آگئی وہ لوگ عرش پہنچے ۔ انہیں عزت ملی ، شان و شوکت ملی ۔ زندگی ملی ۔ بندگی ملی شاہی ملی اور ناخدائی ملی۔ سیرت کا مقصد شیریں اور شیریں زبانی نہیں بلکہ سیرت کا مقصد تو یہ ہے کہ صاحب سیرت کی ہر بات اور ہر عمل کو فلاح حیات سمجھا جائے۔ آپ کے عمل پر جان کا نذرانہ پیش کیا جائے۔ آج  عالم اسلام کی بلکہ پوری دنیا کی فلاح ملک و تعمیر میں نہیں ، شاہی محلات میں نہیں بلکہ یتیم مکہ کی سیرت کے شفا خانے میں ہے۔ آؤ نظام مصطفی کے جانثارو ، اتباع مصطفی کو حرز جان بنا لو پھر دونوں جہاں ہمارے ہوں گے۔ ہوائیں ہمارا پیغام پہنچائیں گی ۔ سمند ر ہمارے لیے راستے بنائیں گے ۔ دجلہ و فرات ہمارا کہا مانیں گے ۔ فرشتے جھک جائیں گے اور یزداں فخر کر ے گا۔

تیر در ہو میرا سر ہو  میر ا دل ہو تیرا گھر ہو

تمنا مختصر سی ہے     مگر تمہید طولانی

حافظ فہیم احمد ,کلاس نہم بی

گورنمنٹ صادق ڈین ماڈل ہائی سکول  بہاول پور

شیئر کریں