ایک خط کی روداد

محمد کاشف  نعیم (وہاڑی)

میں ایک لکھا ہوا خط ہوں۔ میری داستان عجیب وغریب ہے۔ مجھے ایک ننھی سی بچی نے ضلع وہاڑی سے لیٹر بکس میں ڈالا تھا۔  شروع شروع میں لیٹر بکس کی اس تنگ و تاریک کوٹھری میں میرا دم گھٹنے لگا لیکن میرے دل کی تسلی کے لیے یہ بات کافی تھی کہ میں وہاں اکیلا نہ تھا بلکہ اور بھی بہت سے ساتھی تھے اور لمحہ بہ لمحہ ان میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ہم سب ایک ہی برادری کے افراد تھے مگر سب کی منزل جدا جدا تھی۔ اچانک ایک آدمی نے لیٹر بکس کا دروازہ کھولا۔ اس نے خاکی وردی پہن رکھی تھی اور کندھے پر ایک موٹا سا تھیلا لٹکا رکھا تھا۔ ہم سب ڈر گئے۔ اس نے ہمیں وہاں سے کھینچ کر نکالا اور اپنے تھیلے میں ڈال دیا اور اپنا راستہ لیا۔ ہمیں اس بات کا علم نہ تھا کہ وہ ہمیں کہاں لے جا رہا ہے۔ یہ بات ہمارے لیے باعث مسرت بنی کہ ہمیں اس کے تھیلے میں زیادہ دیر بند نہیں رہنا پڑا۔ ایک سنجیدہ انسان نے ہم سب کو ایک میز پر ڈھیر کر دیا۔ ہم ادھر ادھر پھسل گئے۔ پھر ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے ہماری پیشانی پر کالی مہریں لگانا شروع کر دیں۔ یہ لمحات انتہائی تکلیف دہ تھے۔ وہ بڑی بے رحمی سے مہریں لگا رہا تھا۔ جن سے ہمارا حسن وجمال مسخ ہو کر رہ گیا۔ پھر ہماری چھانٹی کی گئی اور ہمیں مختلف خانوں میں رکھا گیا۔ اس کے بعد پھر ہمیں قیدیوں کی طرح تھیلوں میں بند کیا گیا اور ریلوے سٹیشن پہنچا دیا گیا۔ گاڑی لیٹ تھی اس لیے ہمیں پلیٹ فارم پر پھینک دیا گیا۔ گاڑی آئی اور ہمیں ایک سرخ ڈبے میں پھینک دیا گیا۔ رات بھر ہمارا سفر جاری رہا۔ صبح کے وقت اس تھیلے کو (جس میں ہم بند تھے) سٹیشن پر پھینک دیا گیا۔ وہاں سے ایک شخص اس تھیلے کو اٹھا کر مقامی ڈاک خانے میں لے گیا۔ جہاں ایک بار پھر ہمیں میز پر بکھیر دیا گیا۔ ایک بار پھر ہمارے چہروں پر مہریں لگائی گئیں، ہمیں چھانٹا گیا اور مختلف تھیلوں میں بند کیا گیا۔ یہ تھیلے اٹھا کر ڈاکیے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ میں جس تھیلے میں  تھا، اسے ایک بے رحم شخص نے اپنی سائیکل پر باندھا۔ اس نے اتنے زور سے رسی باندھی کہ میں بلبلا اٹھا۔ تین میل سفر کرنے کے بعد ہمیں ایک چھوٹے  سے ڈاک خانہ لے جایا گیا، جہاں مختلف ڈاکیے اپنے اپنے چکوک میں لے گئے اور اپنی ہمسائیگی میں ہمیں تقسیم کر دیا۔ مجھے ایک ایسے گھر میں تقسیم کیا گیا جس کا مالک زمیندار مگر ان پڑھ تھا۔ وہ مجھے سکول ماسٹر کے پاس لے گیا۔ جس نے مجھے پڑھ کر سنایا۔ چونکہ میں پر مسرت خط تھا۔ زمیندار مجھے سن کر بہت خوش ہوا اور مجھے سنبھال کر رکھ لیا۔

شیئر کریں
736
6