محمد حمزہ (لودھراں)

عامر کھیل کے میدان میں پہنچا تو وہاں اسی کا انتظار ہو رہا تھا۔ عامر اپنی ٹیم کا کپتان تھا۔ ٹاس ہونے لگا۔ ٹاس فاخر کی ٹیم نے جیتا اور پہلے بلے بازی کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں اطراف سے بھرپور کھیل کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔ فاخر کی پوری ٹیم بیس مقررہ اوورز میں 150 رنز بنا سکی۔ اب عامر کی ٹیم کی باری تھی۔ عامر کی ٹیم نے اچھا آغاز کیا۔ اس وقت میچ بہت سنسنی خیز ہو گیا تھا جب ہدف پورا کرنے کے لیے دس رنز چاہیئے تھے اور صرف تین گیندیں باقی تھیں۔ ابھی ناصر بیٹنگ کر رہاتھا۔ ایک بال مس ہو گئی، مگر پھر فوراً ہی اس نے ایک زوردار چوکا لگایا۔ گویا اب ایک بال پر ایک چھکے کی ضرورت تھی اور ٹیم کی عزت عامر کے ہاتھ میں تھی۔ عامر کا دل دھڑک رہا تھا۔ آخری گیند پھینکی گئی تو عامر نے پوری قوت سے ہٹ لگائی۔ اس وقت سب کی سانسیں تھم سی گئیں۔ گیند باؤنڈری پر کھڑے خرم کے ہاتھوں کی طرف بڑھ رہی تھی، مگر پھر ایک حیرت انگیز بات ہوئی۔ بال خرم کے ہاتھوں سے پھسل کر باؤنڈری پار کر گئی تھی۔ بس پھر کیا تھا، عامر کی ٹیم خوشی سے چیخی اور پھر انہوں نے عامر کو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا۔ کچھ دیر کے بعد عامر کو ٹرافی دے دی گئی۔ جب وہ ٹرافی لے کر ڈریسنگ روم کی طرف جا رہا تھا تو اس کے کانوں میں فاخر کی آواز آئی۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا: تم لوگوں نے اتنی بُری کارکردگی کیوں دکھائی؟ پھر اسے خرم کی آواز سنائی دی: بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے کھیل پر بہت ناز تھا، ہم نے سوچا کہ ہم تو اتنا اچھا کھیلتے ہیں لہذا ہمیں پریکٹس کی کیا ضرورت ہے؟ پریکٹس بہت ضروری ہوتی ہے کھیل کے لئے، محنت کریں، تبھی تو جیت حاصل ہوتی ہے۔ عامر سوچ رہا تھا کہ واقعی جو محنت کرتے ہیں، جیت اُنہی کی ہوتی ہے اور جو اپنے اوپر ناز کرتے ہیں، وہ کچھ نہیں کر پاتے۔

شیئر کریں
1472
15