میں گندم کا ایک دانہ ہوں

نوید منظور (یزمان)

میں اپنے بہت سارے بہن بھائیوں کے ساتھ ایک کمرے میں پڑے ہوئے ڈھیر میں پہنچا تھا۔ ہم سب ہنسی خوشی کھیلتے رہتے تھے۔ ایک دن کسان کو پیسوں کی سخت ضرورت پڑی تووہ مجھے میرے بہن بھائیوں کے ساتھ ایک بوری میں بند کر کے منڈی لے گیا۔ ہمیں باقی دانوں کے ساتھ بیچ کر خوشی خوشی گھر آ گیا۔ ہم سب نئی جگہ پہنچ کر بہت اداس ہو گئے۔ کچھ دن کے بعد ایک آدمی ہم سب کو اپنی کمر پر لاد کر گھر لے آیا۔ وہ ایک کسان تھا، ورنہ ہم سب چکی میں پس کر اور آٹا بن کر لوگوں کے پیٹ میں جا چکے ہوتے۔ اس آدمی نے ہم سب کو اچھی طرح سے نہلا کر صاف کیا۔ ہم سب کو سیر ہو کر پانی پلایا اور کھیت کی طرف چل دیا۔ اس نے ہموار زمین کی نرم مٹی میں ہم سب کا چھڑکاؤ کر دیا۔ ہم دور دور بکھر گئے لیکن ہم ایک ہی جگہ پر تھے۔ نرم مٹی میں خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔ کچھ دن تک ہم پر کسان کی نظریں جمی رہیں۔ کسان ہم سب کو خوشی سے دیکھتا رہتا۔ ایک دن وہ بھی آیا کہ ہم سب نے زمین میں جڑیں پکڑ لیں۔ ہر طرف ہریالی ہو گئی۔ ہم سب نے اگ کر ہر طرف سبزہ ہی سبزہ کر دیا۔ رفتہ رفتہ ہم سب بڑے ہونا شروع ہو گئے۔ میں جوان ہو گیا۔ میرے اوپر اور بھی بہت سے دانے نکل آئے۔ میں اپنے ساتھ اور دانوں کو دیکھ کر بہت خوش تھا۔ آخر کار ایک دن کسان کی محنت رنگ لے آئی۔ کسان سنہری گندم کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس  نے ہمیں کاٹنے کا ارادہ کر لیا۔ ہم سب زمین سے جدا ہونے پر پریشان ہو گئے۔ کسان نے بہت سے لوگوں کو دعوت دی اور گندم کی کٹائی شروع ہو گئی۔ مجھے بھی کاٹ کر کھیتوں میں ایک گٹھے کی شکل میں رکھ دیا گیا۔ میرا وہاں دم گھٹ رہا تھا۔ ایک دن گٹھا کھول کر مجھے مشین میں ڈال دیا گیا۔ میرے اندر سے بہت سے دانے نکل آئے۔ میں جہاں سے آیا تھا ایک دن پھر مجھے وہاں ہی پر جانا پڑا۔ میں منڈی کے اندر گندم کے دوسرے دانوں کے ساتھ پھر ڈھیر پر پڑا تھا۔ منڈی کے مالک نے مجھے بوری میں بھر کر چکی پر بھیج دیا۔ اب مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ چکی کے مالک نے مجھے مشین میں ڈال کر پیس دیا تو میری جان ہی نکل گئی اور اس طرح میری زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔

شیئر کریں
794
9