عکاشہ سلیم (کبیر  والا)

سکول کا وقت ختم ہونے کے بعد جیسے ہی ہیڈ ماسٹر صاحب صدر دروازے سے باہر نکلے، ان کے کانوں میں ننھی کا کہا ہوا جملہ   گونجنے لگا: ابو جان! میرے لیے امرود لایئے گا۔ ان کی نظریں سڑک کے کنارے موجود ریڑھی والوں کی طرف اٹھ گئیں۔ کچھ فاصلے پر ایک پھل فروش ریڑھی پر مختلف پھل سجائے آوازیں لگا کر گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔

ہیڈ ماسٹر صاحب اس کے پاس پہنچے اور کہا: کیوں بھئی! امرود میٹھے ہیں ناں، ان کے اندر کیڑا تو نہیں ہو گا؟

پھل فروش نے تیزی سے ایک بڑا سا امرود کاٹ کر ہیڈ ماسٹر صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: دیکھ لیجیے صاحب! تازہ، صاف اور انتہائی میٹھے ہیں۔ انہوں نے چکھ کر دیکھا تو واقعی میٹھا تھا۔

کتنے تول دوں جناب؟ پھل فروش نے پوچھا۔

دو کلو، جواب ملا۔

پھل فروش نے دو کلو امرود تول کر ہیڈ ماسڑ صاحب کو دے دیے۔ ہیڈ ماسڑ صاحب نے قیمت ادا کی اور تھیلے میں سے ایک اتنا ہی بڑا امرود نکالا جتنا بڑا وہ ذائقہ چکھنے کے لیے ابھی ہاتھ میں لیے کھا رہے تھے، یہ امرود انہوں نے پھل فروش کی ریڑھی پر رکھ دیا۔

واپس کیوں رکھا ہے صاحب؟ پھل فروش نے حیرانی سے پوچھا۔

تم اتنا بڑا امرود پہلے ہی مجھے چکھنے کے لیے دے چکے ہو، اس لیے یہ امرود تمہارا ہے کیوں کہ وہ تول میں شامل نہیں تھا۔

صاحب! مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ بولا۔

بھلے آدمی ! تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مجھے تو فرق پڑتا ہے، ہیڈ ماسڑ نے جواب دیا۔

وہ کیسے جناب؟ پھل فروش حیرت سے بولا۔

میرے بھائی! اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ناپ تول اور قیمت ادا کرنے میں کمی نہ کیا کرو، جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے۔ ہیڈ ماسٹر نے وضاحت کی، السلام علیکم کہا اور چل دیے ۔

شیئر کریں
1155
11