زہرا ظفر (ملتان)

ایک دن میں بازار سے خریداری کرنے کے بعد گھر جانے  کے لیے نزدیکی گلی سے گزر رہا تھا  کہ اچانک مجھے ایک گھر سے بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھے مجبوراً معلوم کرنا پڑاگیا کہ یہ بچہ کیوں رورہا ہے۔  میں نے دیکھا کہ ماں اپنے ایک نو دس سالہ بیٹے کو آہستہ سے مارتی ہے اور اپنے بچے کے ساتھ خود بھی رونے لگ جاتی ہے۔ میں نے پوچھا بہن!  کیوں بچے کو مار رہی ہو جبکہ خود بھی روتی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ بھائی ! آپ کو تو معلوم ہے کہ اس کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں اور ہم بہت غریب بھی ہیں۔  میں لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرتی ہوں اور اس کی پڑھائی کا مشکل سے خرچ اٹھاتی ہوں۔ یہ کم بخت روزانہ دیر سے سکول جاتا ہے اور دیر سے گھر آتا ہے۔ جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود میں لگ جاتا ہے اور پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں دیتا ، جس کی وجہ سے روزانہ اپنے سکول کی وردی گندی کردیتا ہے۔ میں نے بچے اور اس کی ماں کو تھوڑا سا سمجھایا اور چل دیا۔

ایک دن میں علی الصبح تازہ  سبزی اور پھلوں کی خریداری کے لیے  سبزی منڈی گیا تو اچانک میری نظر  اس بچے پر پڑی جو روزانہ گھر سے مار کھاتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچہ منڈی میں گھوم پھر رہا ہے اور جو دکان دار اپنی دکانوں کے لیے سبزی خرید کر اپنی بوریوں میں ڈالتے تو ان سے کوئی سبزی زمین پر گر جاتی تو وہ بچہ فوراً اسے اٹھا کر اپنی جھولی میں ڈال لیتا۔ میں یہ ماجرا دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہورہا تھا کہ چکر کیا ہے؟

میں اس بچے کو چوری چوری دیکھنے لگا۔ جب اس کی جھولی سبزی سے بھر گئی تو وہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر اونچی آوازیں لگا کر اسے بیچنے لگا۔ ایک شخص نے آتے ہی اپنے پاؤں کی زور دار ٹھوکر  سے  اس ننھی سی دکان کو ایک ہی جھٹکے میں ساری سڑک پر پھیلا دیا اور بازو سے پکڑ کر اس بچے کو اٹھا کر دھکا دے دیا۔ ننھے دکان دار  نےآنکھوں میں آنسو لیے اپنی سبزی کسی دوسری دکان کے آگے لگا لی۔ تھوڑی سی سبزی تھی جلد ہی فروخت ہوگئی ۔ وہ بچہ اٹھا اور بازار میں ایک کپڑے والی دکان میں داخل ہوا اور ایک دکان دار کو پیسے دے کر دکان میں پڑا اپنا اسکول بیگ اٹھا کر اور بنا کچھ کہے سکول کی جانب چل دیا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔

جب وہ بچہ اسکول گیا تو ایک گھنٹہ دیر ہوچکی تھی۔ جس پر اس کے استاد نے ڈنڈے سے اسے خوب مارا۔ اس دوران میں نے جلدی سے جاکر استاد صاحب کو منع کیاکہ یہ یتیم بچہ ہے اسے مت مارو۔ استاد صاحب کہنے لگے کہ یہ روزانہ ایک گھنٹہ دیر سے آتا ہے۔ میں روزانہ اسے سزا دیتا ہوں اور کئی بار اس کے گھر میں بھی پیغام دے چکا ہوں۔ بچہ مار کھا کر کلاس میں بیٹھ کرپڑھنے لگا۔ میں نے اس کے استاد کا نمبر لیا اور گھر چل دیا۔

اگلے دن میں نے صبح کی نماز ادا کی اور فوراً بچے کے استاد کو کال کی کہ منڈی ٹائم ہر حالت میں منڈی پہنچے جس پر مجھے مثبت جوا ب ملا ۔سورج نکلا اور بچے کے اسکول جانے کا وقت ہوا اور بچہ گھر سے سیدھا منڈی اپنی ننھی دکان کا بندوبست کرنے لگا۔ میں نے اس کے گھر جاکر اس کی والدہ کو کہا کہ بہن! میرے ساتھ چلو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ آپ کا بیٹا دیر سے سکول کیوں جاتا ہے۔ منڈی میں لڑکے کا استاد بھی آچکا تھا۔ ہم تینوں نے منڈی کی مختلف جگہوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں۔ اور بچے کو چھپ کر دیکھنے لگے۔ حسب معمول آج بھی اسے کئی لوگوں سے جھڑکیاں سننی پڑیں اور آخر کا ر وہ لڑکا سبزی فروخت کرکے کپڑے والی دکان کی طرف چل دیا۔ اچانک میری نظر اس کی ماں پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بہت ہی درد بھری سسکیاں لے کر زاروقطار رو رہی تھی اور میں نے فوراً استاد کی طرف دیکھا تو اس کے بھی آنسو بہہ رہے تھے ۔ دونوں کے رونے سے مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کسی مظلوم پر ظلم کیا ہو اور انہیں آج احساس ہورہا ہو۔ اس کی ماں روتے ہوئے گھر چلی گئی اور استاد بھی سسکیاں لیتے ہوئے سکول چلا گیا۔

حسب معمول بچے نے دکان دار کو پیسے دیئے اور آج اس کو دکان دار نے ایک لیڈیز سوٹ دیتے ہوئے کہا بیٹا! آج اس سوٹ کے سارے پیسے پورے ہوگئے ہیں۔ اپنا سوٹ لے لو ۔ بچے نے سوٹ لے کر سکول بیگ میں رکھا اور سکول چلا گیا۔ آج بھی وہ ایک گھنٹہ لیٹ تھا ۔ وہ سیدھا استاد کے پاس گیا اور بیگ ڈیسک پر رکھ کر مار کھانے کے لیے پوزیشن سنبھال لی تاکہ استاد ڈنڈے مارے۔ استاد کرسی سے اٹھا اور فوراً بچے کو گلے لگا لیا اور زارو قطار رونے لگا ۔ یہ منظر دیکھ کر میرے بھی آنسو نکلنے لگے تاہم میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور آگے بڑھ کر استاد کو دلاسہ دیااور بچے سے پوچھا، یہ جو بیگ میں سوٹ ہے وہ کس کے لیے ہے؟ اس نے جواب دیا میری ماں امیر لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے اور اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں ، اس لیے میں نے اپنی ماں کے لیےسوٹ خریدا ہے۔ یہ سوٹ اب گھر جاکر اپنی امی کو دو گے؟  میں نے پوچھا۔ بچے کے جواب نے میرے اور استاد کے پیروں سے زمین ہی نکال دی۔ اس نے جواب دیا ،نہیں انکل جی!  چھٹی کے بعد درزی کو دے آؤں گااور روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے سلائی دوں گا،  جب سلائی کے پیسے پورے ہوجائیں گے پھر اپنی ماں کو دوں گا۔

استاد صاحب اور میں یہ سوچ کر روتے رہے کہ ابھی اس معصوم کو اور کئی دن منڈی جانا پڑے گا اور لوگوں سے دھکے کھانے پڑیں گے اور ننھی دکان لگانی پڑے گی۔ آخر کب تک غریبوں کے بچے ننھی دکان لگاتے رہیں گے ؟

شیئر کریں
1030
12