حفصہ حکیم (مظفرگڑھ)

ایک بادشاہ کے پاس اپنے اپنے فن کے پانچ ماہر آئے۔ایک کو منطق پر عبور حاصل تھا۔دوسرا زبان داں تھا۔تیسرا موسیقی کا ماہر تھا، چوتھا جوتشی اور پانچواں حکیم تھا۔ بادشاہ نے ان کی باتیں اور ان کے دعوے سنے تو بہت خوش ہوا اور اپنے وزیر سے ان کی تعریف کرنے لگا۔بادشاہ نے انہیں  انعام دینے کا ارادہ کیا تو وزیر مسکرایا اور کہا:بادشاہ سلامت!آپ انہیں جو انعام دے رہے ہیں،یہ اس کے مستحق ہیں بھی یا نہیں، دیکھنا یہ چاہیے کہ  دنیائے عمل میں ان کی کیا حیثیت ہے۔ بادشاہ نے کہا:اس کا اندازہ کیسے ہو گا۔ وزیر نے جواب دیا:یہ پانچ افراد ہیں،بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ان سے کہا جائے کہ اپنے لیےآج دوپہر کا کھانا یہ خود پکائیں، چھوٹا سا کام ہے،یہ اگر کوئی صلاحیت رکھتے ہیں تو ضرور کر دکھائیں گے۔ بادشاہ نے وزیر کی بات مان لی اور  اس مقصد کے لیے ایک مکان ماہرین کے حوالے کر دیا اور ایک ملازم یہ دیکھنے کے لیے وہاں رکھا کہ یہ کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

ان پانچوں نے سبزی پلاؤ بنانے کا فیصلہ کیا۔منطق میں ماہر شخص بازار سے گھی لانے کے لیے روانہ ہوا۔وہ گھی لے کر آ تے ہوئے راستے میں مسلسل  یہ سوچ رہا تھا کہ اس برتن نے گھی کو پکڑ رکھا ہے یا گھی نے برتن کو پکڑ رکھا ہے۔جب بات سمجھ میں نہ آئی تو اس نے برتن کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنا چاہا۔ اس  دوران سارا گھی گر پڑا۔اب اسے معلوم ہوا کہ برتن نے ہی گھی کو پکڑ رکھا تھا۔بات تو سمجھ میں آ گئی،مگر گھی ضائع ہو گیا۔ دوسری طرف زباں فہمی  کا ماہر دہی لینے گیا۔دہی بیچنے والی عورت نے کہا:لے لیجیے دہی اچھی ہے۔ وہ تڑپ کر بولا: نہیں نہیں،دہی مذکر ہے موٴنث نہیں، یوں کہو کہ دہی اچھا ہے۔ سیدھی سادی عورت کا ان باریکیوں سے کیا تعلق!کہنے لگی ،معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں دہی نہیں چاہیے،  جاؤ چلے جاؤ یہاں سے۔ چناں چہ وہ بغیر دہی لیے واپس روانہ ہو گیا۔

علم جوتش کا ماہرشخص کچھ مصالحے خریدنے کے لیے گھر سے نکلا ہی تھا کہ بلی نے راستہ کاٹ لیا۔اس نے اسے بدشگونی سمجھا اور پریشان ہو گیا۔پھر بھی ہمت کرکے آگے بڑھا تو ایک درخت پر گرگٹ کو رنگ بدلتے دیکھا۔اب تو بدشگونی کی انتہا ہو گئی۔ وہ بغیر کچھ خریدے واپس گھر آ گیا۔حکمت کا ماہر  شخص  سبزی خریدنے بازار پہنچا تھااور اس اُلجھن میں گرفتار تھا کہ کون سی سبزی خریدے۔کوئی سبزی خریدنے کا ارادہ کرتا تو سوچ میں پڑ جاتا کہ یہ تو بادی ہے۔دوسری طرف متوجہ ہوتا تو خیال آتا کہ اس میں صفرا کا مادہ زیادہ ہے۔بعض سبزیاں بلغمی مزاج کے لئے ٹھیک نہ پائیں۔آخر جب فیصلہ نہ کر پایا تو خالی ہاتھ گھر آ گیا۔ ادھر ماہرموسیقی چاول پکا رہاتھا۔ہنڈیا اُبلنے لگی تو اس میں سے کھد کھد کی آوازیں آنے لگیں۔اسے کسی سُرتال کے بغیر اس آواز پر بہت غصہ آیا۔سُر درست کرنے کے لیے ہاتھ نچایا۔ہاتھ چاول کی دیگچی پر پڑا۔وہ دور جا پڑی اور سارے چاول ضائع ہو گئے۔دوپہر گزر گئی اور سب بھوکے رہے۔ملازم نے سارا قصہ بادشاہ کے سامنے پیش کیا تو وہ  یہ سن کر حیران رہ گیا۔کچھ دیر سوچنے کے بعد بادشاہ نے کہا: سچ ہے جو علم فائدہ نہ پہنچائے،وہ بے کار ہے۔

شیئر کریں
1107
15