ارومہ احمد(ملتان)

ميں سخت اور کھردرى مٹى تھى۔ جب مجھے کھود کر ريڑھى میں ڈالا گيا تو مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ اپنى جگہ اپنا وطن چھوڑنا مجھے بہت برا لگا۔ میں سہم گئى پھر مجھے ريڑھى سے بے دردى سے اتار کر پانى میں گوندھا گيا اور ايک سانچے میں ڈال کر خوب گھمايا گيا ۔ مجھے بہت چکر آ رہے تھے اورانجانا سا خوف بھى محسوس ہو رہاتھا کہ نجانے ميرے ساتھ کيا ہونے والا ہے۔  میں گول گول اور باريک شکل میں ڈھلتى جارہى تھى ۔ میں ابھى چکروں کى گھبراہٹ سے نکلى نہ تھى کہ آگ کى بھٹى میں جھونک ديا گیا۔ کئى گھنٹے تپنے کے بعد مجھے نکالا گيا تو ميں ايک خوب صورت صراحى کى شکل اختيار کر چکى تھى اور مجھے ايک دکان کى زينٹ بنا ديا گيا۔ وہاں اور بھى بہت سجاوٹى اشيا تھيں جن کو وہيں سے اٹھا کر بنايا گيا تھا جہاں سے مجھے کھودا گيا تھا۔ کئى دن دکان میں رہى۔ دکان دار روز صبح سويرے کپڑے سے مجھ پر پڑى گرد صاف کرتا۔ ايک دن ايک خوب صورت آنٹى آئى اور مجھے خريد کر اپنے گھر لے آئى اور مجھے اپنے گھر کے شو کيس میں کچھ دوسرے شو پيسز کے ساتھ سجا ديا  تھا۔ وہاں ميرى دوستى ايک لیمپ سے ہو گئى جو رات کو روشنى ديتا اور ہم سب کے درميان چمک کر ہمارى خوب صورتى میں اضافہ کرتا۔ اسى طرح کئى برس گزر گئے۔ ايک دن گھر کى نوکرانى صفائى کرنے لگى۔ تمام شو پيس اس نے المارى سے نکالے تو میں اچانک اس کے ہاتھ سے پھسل گئى اور ميرے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ مجھے کوڑے دان میں ڈال ديا گيا اور میں دوبارہ سے خاک میں گلنے سڑنے لگى کيوں کہ اس دنيا کى حقيقت اور آغاز و انجام خاک ہى ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے يہى زندگى ہے۔

شیئر کریں
760
5