سعدیہ نواز (بہاول نگر)

حبیب اور یونس چوتھی کلاس میں پڑھتے تھے۔ وہ ہمیشہ کلاس میں پوزیشن لیتے تھے۔ سکول سے چھٹی کے بعد دونوں ساتھ ہی گھر جایا کرتے تھے۔ امجد کو ان کی دوستی اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ ان دونوں سے بہت زیادہ حسد کرتا تھا۔ امجد کلاس کا نہایت نالائق لڑکا تھا۔ وہ بمشکل پاس ہوتا تھا۔ امتحان نزدیک آ رہے تھے اور امجد نے دل میں سوچ لیا تھا کہ وہ اس بار  حبیب اور یونس کو پوزیشن حاصل نہیں کرنے دے گا۔ آخر کار ٹائم ٹیبل آگیا جس کے مطابق پہلا پرچہ حساب کا تھا۔ بریک میں جب حبیب اور یونس  کلاس  سے باہر نکلے اور امتحان کی تیاری کے حوالے سے  مشورہ کرنے لگے، تب ادھر امجد نے اپنے پلان کے مطابق یونس اور حبیب کی تمام  کاپیاں چرا لیں اور بریک  کے دوران ہی  بھاگ گیا۔ پھر اس نے بستے سے کاپیاں نکال کر ردی والے کو بیچ  دیں۔ جلد بازی میں  اس  نے  اپنی کاپیاں بھی ردی والے کو بیچ دیں۔ سکول میں بریک کے بعد چھٹی ہو گئی اور وہ دونوں  اپنے بیگ اٹھائے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ گھر پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی یونس حبیب کے گھر پہنچا  اور  اسے بتایا کہ اس کے بستے کی کاپیاں  غائب ہیں۔ جب حبیب نے اپنا بستہ کھولا تو  اس کی اپنی کاپیاں بھی غائب تھیں۔ یہ دونوں  بہت پریشان ہو گئے کہ اب امتحان کی تیاری کیسے کریں گے۔ یہ دونوں سوچ  رہے تھے کہ اتنے میں حبیب کی امی نے کہا کہ حبیب تمام اخبارات اور فالتو ردی  ردی والے کو دے آؤ۔ جب یہ دونوں ردی لے کر ردی والے کے پاس پہنچے تو  انہوں نے ردی کے ٹھیلے پر اپنی کاپیاں دیکھیں۔ انہوں نے یہ کاپیاں خرید لیں اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اور امتحان کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ ادھر امجد بہت پریشان تھا کیوں کہ اس نے  اپنی کاپیاں بھی ردی والے کو  دے دیں تھیں۔ آخر کار  امتحان  شروع ہو گئے۔ دونوں نے دل و جان  سے تیاری کی تھی اس لیے ان کے پیپر بہت اچھے ہوئے اور وہ بہت خوش بھی تھے کہ ان کی محنت کی وجہ سے پیپر اچھے ہوئے۔ انہیں اس دفعہ بھی امید تھی کہ وہ پوزیشن حاصل کریں گے۔جب امتحان کا نتیجہ آیا تو وہ بہت خوش ہوئے کیوں کہ یونس  نے پہلی اور حبیب نے دوسری پوزیشن  حاصل کی تھی۔ جب کہ دوسری جانب  امجد فیل ہوگیا۔ حبیب اور یونس کو ان کی محنت کا پھل مل گیا۔  امجد کو حسد کی سزا مل گئی۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ حسد کا انجام  بہت برا ہوتا ہے۔

شیئر کریں
1102
8