مزمل سجاد (ڈیرہ غازی خان)

سڑک کے کنارے دو اونچے اونچے درخت تھے۔ یہ درخت ساتھ ساتھ تھے۔پاس ہی بجلی کے کھمبے تھے۔ان کھمبوں کے ساتھ بجلی کے تار بندھے ہوئے تھے۔ ایک دن زور کی آندھی چلی  جس سے بڑے درخت  کی جڑیں ہل گئیں اور وہ چھوٹے درخت سے جا لگا۔ کہنے لگا : بھائی!  خدا کے لیے میری مدد کرو۔ مجھے کچھ دن سہارا دو ۔میری جڑیں پھر سے زمین میں جم جائیں تو  میں اپنا بوجھ اٹھا لوں گا۔ کچھ  دن چھوٹے درخت نے بڑے درخت کا بوجھ اٹھایا۔ آخر صبر نہ ہو سکا۔ بولا بھائی!  تمہارا بوجھ زیادہ ہے ،تم اپنا بوجھ خود ہی سنبھالو۔ بڑے درخت نے منت سماجت کرتے کہا: بھائی ! مجھے تم نے سہارا نہ دیا تو میں گر جاؤں گا ۔ لوگ میری شاخیں کاٹ ڈالیں گے۔  آری سے میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ چھوٹے درخت نے بڑے درخت کا کہا نہ مانا اور ایک طرف ہٹ گیا۔ بڑے درخت کے لیے اب کوئی سہارا نہ رہا۔ ایک دن پھر سے آندھی چلی۔ بڑادرخت بے چارہ زمین پر آ گرا۔ درخت کے گرنے سے بجلی کے تار ٹوٹ گئے۔ بجلی والے وہاں آ پہنچے، درخت کو کاٹا۔ نئے تار کھمبوں کے ساتھ باندھ دیے۔ بجلی والوں نے سوچا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دوسرا درخت بھی کسی دن گر جائے اور تار ٹوٹ جائیں چنانچہ انہوں نے اس درخت کو بھی کاٹ ڈالا۔ چھوٹا درخت اب افسوس کر رہا تھا کہ بڑے درخت کو کیوں نہ سہارا دیا۔

شیئر کریں
1049
8