سب جلتے چراغوں کی ضیا تھے میرے بابا

ثمینہ بشیر (وہاڑی)

اولادکی تعلیم وتربیت میں والد کا کردار ضروری ہوتا ہے،جب کہ اس کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیارسے اولاد نڈراور بے باک ہو جاتی ہے  جس کی وجہ سے اس کی تعلیم ،تربیت اورکردار پر بُرا اثر پڑتا ہے،جب کہ والد کی سختی سے اولاد کو من مانیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا۔شاید یہی وجہ ہے کہ اولاد باپ سے زیادہ ماں سے قریب ہوتی ہے، لیکن اولادیہ نہیں جانتی کہ اس کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم وتربیت کا مناسب اہتمام کرنے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔یہ باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل وعیال اور اولادکو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کریا روکھی سوکھی کھاکرگزارہ کرتا ہے، لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھاکھانا، پینا،تعلیم اور تربیت میسرہو۔ ہمارے والد مرحوم کی پوری زندگی ہماری تعلیم و تربیت اور ضرورتوں کے گرد ہی گھومتی گزری۔ وہ ایک اوسط درجے کے سرکاری ملازم تھے لیکن  اپنی محدود آمدنی اور وسائل کے باوجود ہماری تعلیم و تربیت میں کبھی کوئی دقیقہ  فروگزاشت نہ کیا۔ وہ ہمہ وقت ہماری ضروریات زندگی کی چارہ جوئی میں مصروف کار رہے۔  جب سے ہوش سنبھالا، امی ابو دونوں کو ایک جہد مسلسل سے نبرد آزما دیکھا۔  سخت سردی ہو یا  گرمی، وہ موسم کی سختیاں اپنی ذات پر  جھیل کر ہماری تعلیم و تربیت کا اہتمام کراتے رہے۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے شدید داعی تھے۔ نوے کی دہائی میں  پرائیویٹ اسکولنگ کا تصور وسائل کی عیاشی سمجھا جاتا تھامگر والد صاحب کے لیے ہماری پڑھائی نوکمپرومائزنگ پوائنٹ تھا۔ لہذاہم چاروں بہن بھائی نجی تعلیمی اداروں میں پڑھتے رہے۔ گاؤں سے قصبے اور بعدازاں شہر کا رخ کرنا بھی محض ہماری پڑھائی کی خاطر تھا۔ آج کے دور میں یہ دربدری شاید آسان ہو مگر بات کر رہی ہوں سن 2002ء کی۔ کبھی کبھار مزاج میں تھوڑی سختی عود کر آتی، زبان بھی بسا اوقات تلخ ہو جاتی تھی مگر ایسا بلاسبب نہیں ہوتا تھا، وہ اوپر سے سخت لیکن اندر سے بے حد نرم،  دل کے سادہ، مزدور فطرت، اعتدال پسند، ملنسار، غم گسار اور یار باش آدمی تھے۔ وہ انتہائی  بااصول اور کھرے انسان تھے۔ نظریات کے لحاظ سے لبرل، روایت پسندی کے لحاظ سے قدامت پسند، مزاج کے لحاظ سے باغی، ایک شفیق باپ، ایک بہت اچھے دوست، اپنے پرائے سب کے ہم درد، فطرتاً اصولوں پر ڈٹ جانے والے، منصف مزاج، فلاحی کاموں میں سرگرم عمل،  استطاعت سے بڑھ کر دوسروں کی مدد کرنے والے، اپنے پرائے سب کے غم گسار، زندگی کو بھرپور جینے والے۔ امانت دار ایسے کے پوراگاؤں مالی معاملات کےلیے انہی پہ بھروسہ کرتا۔ بڑوں کے ساتھ بڑے، بچوں کے ساتھ بالکل بچے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے بیٹی یا بیٹے میں صنفی امتیاز کیا ہو۔  معاملہ چاہے تعلیم کا ہو، اعتماد کا، شادی جیسے اہم فیصلے میں رضامندی پوچھنے یا وراثت میں حق دینے کا، انہوں نے تفریق نہیں کی۔  بیٹیوں کو مردوں کی طرح اور دنیا کا سامنا کرنے کے قابل بنایا۔ بیٹوں کو عملی ترغیب دی کہ  گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے سے مرد کی شان میں ہرگز گستاخی نہیں ہوتی بلکہ یہ تو  اسوہ رسول اکرم ﷺ ہے۔ وہ اولاد کے اتھ ساتھ خاندان کے باقی بچوں، بھانجوں اور بھتیجوں کے لیے ایک بھرپور سپورٹ سسٹم تھے۔ وہ ایک ایسے شجر سایہ دار تھے جس کی چھاؤں تلے زندگی بڑی راحت سے گزر رہی تھی۔ نہیں معلوم کہ ان کو جانے کی اتنی جلدی کیوں تھی۔  

ہر محفلِ بے رنگ کو کرتے تھے وہ خوش رنگ

سب جلتے چراغوں کی ضیا تھے میرے بابا

ہر شخص پہ ہوتی تھی کرامات کی بارش

ہاں سب کے لیے حرفِ دعا تھے میرے بابا

شیئر کریں
363
1