چھوٹا نام، بڑا کام

ماہ نور اکرام (رحیم یار خان)

ایک جنگل میں ایک شیر رہا کرتا تھا۔ ایک دفعہ وہ شکار کی تلاش میں چلا جا رہا تھا کہ ایک چوہیا اُس کے پاوٴں کے نیچے دبتے ہی رہ گئی۔ شیر بولا کیوں چوہیا اگر تجھے اپنے پنجے سے کچل ڈالوں تو؟ چوہیا نے کانپتے ہوئے جواب دیا میری جان لے کر آپ کے ہاتھ کیا آئے گا۔   شیر نے کہا اچھا جا تیرے کہنے پر چھوڑ دیتا ہوں۔ چوہیا بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی دیکھ جنگل کے بادشاہ آج تو نے مجھ پر مہربانی کی ہے اِس کے بدلے میں، میں بھی کسی دن تیرے کام آؤں گی۔ شیر ہنس پڑا اور بولا واہ ری چوہیا واہ، کیا کہنے۔ تجھ جیسی حقیر چوہیا مجھ جیسے طاقت ور شیر کی کیا مدد کر سکتی ہے، تیرا سر تو نہیں پِھر گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ ایک شکاری نے شیر کے پکڑنے کے لیے جال بچھایا۔ شیر غرور میں بھرا گردن اُٹھائے چلا جا رہا تھا۔ اُسے جال نظر نہ آیا اور بے خبری میں اُس کے اندر پھنس گیا۔ اب حیران و پریشان تھا کہ کیا کروں۔ جال سے نکلنا چاہتا تھا لیکن جال ریشم کی مضبوط رسیوں سے بنا ہوا تھا۔ شیر اُسے توڑ نہ سکا۔ اب تو وہ بہت گھبرایا اور زور زور سے دھاڑنے لگا۔ اُس کی چیخ و پکار سُن کر وہی چوہیا بِل سے نکل کر دوڑی آئی اور جال کے پاس آ کر بولی بادشاہ سلامت! چپ چاپ پڑے رہیں، شور نہ کریں نہیں تو شکاری آ جائے گا اورآپ کو  پکڑ کر لے جائے گا، میں ابھی آپ کو جال سے چھڑا دیتی ہوں۔ شیر بولا یہ تم کیا کہہ رہی  ہو، جال اتنا مضبوط ہے کہ میں اِسے نہیں توڑ سکا، تم  کیسے توڑو گی۔ چوہیا نے جواب دیا جال کا توڑنا کیا بڑی بات ہے۔ میں ابھی اس کو کاٹ کر رکھ دوں گی اس پر شیر چپکا پڑا رہا اور چوہیا لگی رسیوں کو کترنے۔ اس نے ایک ایک کر کے بہت سی رسیاں کتر ڈالیں اور شیر آزاد ہو گیا۔ اس نے چوہیا کا شکریہ ادا کیا اور کہا اچھا ہوا کہ میں نے تجھے اپنے پاوٴں تلے نہ کچلا۔

شیئر کریں
1314
16