مہ جبیں زہرہ (ملتان)
روئے زمین کی تدریج اور تعمیر میں جغرافیائی ماحول کے بعد انسانی شخصیات نے کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں، اس لئے کارلائل جیسے مفکر کے نزدیک تاریخ اور تہذیب حقیقتاً عظیم شخصیات کی تگ و دو اور ان کے تحقیقی جوہر کا نتیجہ ہے۔ ایسی عظیم شخصیات جنہوں نے دنیا کی تاریخ کے دائرے کو مثبت سمت موڑا، انہی میں ایک عظیم شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح کی بھی ہے کہ جن کی جہد مسلسل، خیالات و تخلیقات، سیاسی سوجھ بوجھ، فہم و فراست، بصیرت اور ناقابل شکست صلاحیتوں کی بدولت بالآخر مملکت خداداد پاکستان دنیا کے نقشے پر وجود میں آئی اور مسلمانوں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا۔ آزادی کے نتیجے میں ان کے گلے سے انگریزوں کے بعد ہندو سامراج کی غلامی کا طوق اترا اور انہیں اپنے عقائد اور دین اسلام کی روشنی میں آزادانہ زندگی بسر کرنے کا موقع ہاتھ آیا۔ اسے مسلمانان ہند کی خوش نصیبی ہی سمجھیے کہ انہیں قائد اعظم جیسی عظیم ہستی ملی جو کہ اندھیرے میں روشنی کی کرن ثابت ہوئی جن کی مسلسل محنت و کوشش کی بدولت برصغیر میں وہ عظیم انقلاب رونما ہوا، جس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر قائم تھی اور جس کی بدولت برصغیر کے مسلمان اپنا ایک علیحدہ وطن لینے میں کامیاب و کامران ہوئے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قائد اعظم کی زندگی کے ہر لمحے میں ہماری قوم کے لیے مفید جواہر پارے پوشیدہ ہیں، مگر اس سے کہیں زیادہ قابل توجہ ان کے خیالات و افکار ہیں جو انہوں نے قوموں کی اجتماعی زندگی، مسلمانوں کے تہذیب و تمدن، آزادی و حریت اور موجودہ سیاسی کشمکش کے بارے میں ظاہر کیے۔ ان کے تین فرمودات، ایمان، تنظیم اور یقین محکم بلاشک و شبہ کسی بھی غیور اور ترقی پسند قوم کا مطمع نظر بن سکتے ہیں لیکن ان کی تمام تخلیقات میں افضل ترین تخلیق پاکستان ہے۔ آج ایک آزاد مملکت کی شہری کی حیثیت سے ہم جس سکون اور اطمینان سے سانس لے رہے ہیں اور پرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں، یہ سب قائداعظم کے انہی ناقابل شکست ارادوں کی کرشمہ سازی ہے۔ پس ایسے باعمل اور باکردار رہنما کی زندگی اور افکار ہمارے لئے بالخصوص ہمارے نوجوانوں خصوصاً طلبہ کے لیے مشعل راہ اور بہترین نمونے کے حیثیت رکھتے ہیں۔
مورخہ 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے قائد اعظم محمد علی جناح بیسویں صدی کے اوائل میں میدان سیاست میں جلوہ گر ہوئے۔ 1905ء میں پہلی مرتبہ مدارس کے ایک رسالہ انڈین ریویو میں مسلمان کانگریسی کی حیثیت سے ان کا تذکرہ کیا گیا اور ان کی سیاسی حوصلہ مندی کو خراج تحسین پیش کیا۔ 1913ء میں محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی رکنیت بھی قبول کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے اجلاس 1916ء میں بیک وقت لکھنو میں منعقد ہوئے اور ان دونوں سیاسی جماعتوں کے مابین ایک معاہدہ ہوا جسے میثاق لکھنو کہتے ہیں۔ 1928ء میں جب نہرو رپورٹ مرتب ہوئی تو محمد علی جناح نے اس میں بہت سی ترامیم پیش کیں لیکن سوائے ایک کے سب رد کر دی گئیں، لہذا مسلمانوں کو تحفظ دلانے کی خاطر آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس مارچ 1929ء میں منعقد کیا گیا جس میں نہرو رپورٹ کو مسترد کیا گیا اور مسٹر جناح کے چودہ نکات کو مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور ان تحفظ کا ضامن قرار دیا گیا۔
سن 1938ء قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں ایک اہم سال ہے۔ اس سال کے آغاز میں محمد علی جناح کو قائد اعظم کا لقب دیا گیا۔ 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے لاہور کے اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی۔ آخر کار 14 اگست 1947ء کو تحریک پاکستان اپنی منزل مقصود پر پہنچی اور مسلمان علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح پر جو وسیع ذمہ داریاں عائد کی گئی تھیں ان کو وہ ہمت و استقلال سے نبھاتے رہے لیکن کام کی زیادتی اور انتھک محنت کے سبب ان کی صحت جواب دینے لگی اور بالآخر ہمارے قائد اعظم 11 ستمبر 1948ء کو کراچی میں رحلت فرما گئے۔