میرا بھائی : قائد اعظم کی مستند سوانح حیات

تحریر: نعیم احمد ناز

یہ ذکر ہے نوے  کی  دہائی کا۔ اس دور میں پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ لگتا تھا “جناح سے قائد تک” جس میں بابائے قوم قائد اعظم  محمد علی  جناح کی  ذاتی  زندگی  اور سیاسی  جدوجہدکی بہت اچھے انداز سے  عکاسی کی گئی تھی۔ وہ  ڈرامہ ہمارے  بچپن کی  خوب صورت یادوں میں سے  ایک یاد بن کر ہمیشہ  ہمارے  دل و دماغ  میں ہمکتا  رہا۔   گیسٹ  ہاؤس، انگار وادی، آہٹ، دھواں اور چند دیگر  ڈراموں  کے ساتھ  ساتھ  “جناح سے  قائد تک” بھی ہمارے پسندیدہ ڈراموں میں  سے  ایک  تھا، جسے  ہم بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔  ہمیں یاد  ہے کہ گرمیوں کی   ایک حبس زدہ  رات  کو جب گھر کے کچے صحن میں چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں،  ہم اپنے  ابا جی کی  ٹانگیں دباتے  ہوئے بلیک اینڈ وائٹ  ٹی وی پر” جناح سے  قائد تک” میں کھوئے  ہوئے  تھے،  اچانک  ابا جی نے  ہمیں مخاطب ہو کر کہا کہ  پی ٹی وی  کا یہ  ڈرامہ ایک کتاب  “میرا بھائی ” پر مبنی ہے، جو  مادر ملت فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے متعلق لکھی ہے اور یہ کتاب قائداعظم کی سوانح حیات ہے۔  گرمیوں کی  وہ  رات اور اپنے ابا جی  کی  وہ بات  ہمیشہ  ہمارے  حرزجاں رہی کہ قائد اعظم کے بارے میں مزید  جاننے  کی جستجو  میں ہم نے اپنا جیب خرچ جمع  کر  کے احمد پور  شرقیہ  کے  چوک منیر  شہید پر واقع الغفار  بک  ڈپو سے وہ کتاب خریدی  تھی۔ خیر  بچپن کی  یہ یاد  ایک حسین  یاد  بن کر اب بھی ہمارے  ساتھ ہے۔

 گزشتہ چند سالوں سے ہمارا یہ معمول ہے کہ اہم قومی  ایام، واقعات اور اہم  علمی،  ادبی اور سیاسی  شخصیات کی  پیدائش  و اموات کے حوالے سے  معلوماتی  پوسٹ  ہم ایس  ایم ایس، واٹس  ایپ کے ذریعے اپنے  قریبی دوستوں کوارسال کرتے ہیں ۔  اس کے  علاوہ ان خاص دنوں  کے  حوالے  سے  بےشک زیادہ نہیں مگر تھوڑا بہت پڑھنا، سننا اور  گھر  کے  چھوٹے بچوں کو اکٹھا کرکے انہیں ان سے منسوب کوئی کہانی بنا کر سنانا، یہ ہمارا پسندیدہ مشغلہ رہا  ہے۔  چند دنوں قبل ہماری  بھتیجی  آمنہ شمیم  نے ہمیں بتایا کہ  ان کے  سکول میں قائد اعظم کی سالگرہ کے حوالے سے ایک  تقریب منعقد کی جا رہی ہے، جس میں تقریر  کے لیے میرا نام منتخب کیا گیا ہے، لہذا آپ  تقریر لکھنے میں  میری  مدد کریں۔  اپنی  بھتیجی کو ہم نے  “میرا  بھائی”  پڑھنے کے لیے کہا   لیکن انہوں نے کہا کہ آپ اس ہفتے  بچوں کو مادر ملت کی  اس کتاب سے  قائداعظم کی  زندگی  کے  واقعات پڑھ کر سنائیں۔  بچوں کو اپنے  قائد کے  حوالے سے  معلومات دینے  کے لیے ہمیں 22 سال پہلے پڑھی ہوئی  کتاب کو  دوبارہ  پڑھنا پڑا اور اسی  دوران ہی یہ خیال ذہن میں  آیا  کہ بچوں کے ساتھ ساتھ کیوں نہ بڑوں کو بھی حاصل مطالعہ میں شامل کر لیا  جائے۔

 میرا بھائی  ایک ایسی  کتاب  ہے جسے شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر آپ کا  جی  نہیں مانے گا۔ یہ کتاب ہمارے عظیم قائد  کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی  ہے۔ ان کے پچپن سے لے کر ان کی رحلت تک کے تمام واقعات کو مادر ملت فاطمہ  جناح  نے اس کتاب کے  صفحات میں سمویاہے، جو جگہ جگہ ہمیں سبق دیتے ہیں اور من حیث القوم ہمیں  شرم سار بھی کرتے ہیں۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کی  مستند سوانح حیات  لکھنے کے  کام کا آغاز جی  الانا کے تعاون  سے شروع کیا تھا، لیکن 1964ء کے سیاسی  حالات و واقعات کے  نشیب و فراز اس کام میں  رکاوٹ کا باعث ہوئے اور اس طرح یہ منصوبہ ادھورا رہ  گیا۔ صرف تین ابواب تحریر کیے  گئے  اور اس کا مسودہ  نیشنل  آرکائیوز آف پاکستان اسلام آباد میں محفوظ ہے۔ “میرا بھائی”  اگرچہ ایک  چھوٹی  کتاب ہے لیکن  اپنے  نفس مضمون اور مواد کے اعتبار  سے  بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

اس  کتاب میں درج ہے کہ بچپن میں قائد  اعظم محمد علی جناح بہت شرارتی تھے، کھیل میں پڑھنے کی نسبت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے، جس وجہ سے کئی سکول بدلنے پڑے۔ حتیٰ  کہ  خاندان والے کہنے لگ گئے کہ یہ بچہ کچھ نہیں کرنے والا، مگر ان کی والدہ   کو یقین تھا کہ ان کا بیٹا ضرور بڑا ہو کر سب کا نام روشن کرے گا اور آخر ماں کا یقین اور محنت رنگ  لاتی ہے، جس کی بدولت ہی یہ بچہ آگے چل کر اتنا اچھا اور اعلیٰ آدمی بنتا ہے کہ سب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یہاں ہمیں کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، وہ یہ کہ کسی کا یقین آپ کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، خاص طور پر آپ کے والدین کا اور یہ یقین آپ کو کچھ بھی بنا سکتا ہے۔ کامیاب لوگوں کے پیچھے کسی نہ کسی کا یقین ضرور ہوتا ہے۔ وہ اکثر اپنی والدہ کی اس پیش گوئی کا ذکر کرتے تھے کہ وہ ایک دن بڑے آدمی بن کر رہیں گے، مگر ایک گم نام نوجوان ہونے کے ناتے انہیں اکثر حیرت ہوتی کہ کیا یہ پیش گوئی کبھی پوری ہو پائے گی۔ 

 پھر جب انہیں کاروبار کی تعلیم کے لئے لندن بھیجا جاتا ہے، مگر وہ وہاں جا کر وکالت میں داخلہ لے لیتے ہیں، حالانکہ گھر سے بہت مخالفت ہوتی ہے، مگر یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوتا، وہ اپنی خود شناسی کرکے یہ فیصلہ کرتے ہیں، مگر جب وہ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو اب وہ پوری جان لڑا کر محنت کرتے ہیں۔ وہ صرف پڑھائی ہی نہیں کرتے تھے بلکہ مختلف سرگرمیوں میں حصہ بھی لیتے رہتے تھے۔ اپنا زیادہ تر وقت کتابوں کے مطالعہ اور مقررین کی تقریریں سننے میں استعمال کرتے۔ انگریزی ادب کے وسیع مطالعے نے انہیں بہت سے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات سے روشناس کروایا اور انہوں نے اپنے آخری ایام تک مطالعہ جاری رکھا۔ سخت محنت کرکے انہوں نے وکالت کا امتحان دو سال میں پاس کر لیا اور اٹھارہ سال کی عمر میں ہندوستان کے سب سے کم عمر بیرسٹر کہلائے۔ اس میں ہمارے نوجوانوں کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے، اگر ہم ان واقعات کو پرکھیں تو۔

قائد جب تعلیم مکمل کرکے گھریلو پریشانیوں کو کم کرنے کی خاطر وطن واپس تشریف لائے تو اس وقت ان کا مستقبل ایسے تاریک تھا جیسے گہرا سمندر، مگرانہوں نے ہار نہیں مانی، حتی کہ ہندوستان کا یہ بہترین بیرسٹر مہینوں ایک روپیہ کمائے بغیر گھر لوٹ آتا ہے، مگر انہوں نے مہینوں کیا، سالوں سخت محنت جاری رکھی اور آخر ان کی کوششیں رنگ لے آئیں۔ سب سے پہلے انہوں نے ایک انگریز بیرسٹر کے ساتھ کام کیا اور پھر خود مقدمات لڑنے لگے اور چھا گئے۔ مگر یہ سب قطعاً آسان نہیں تھا، بلکہ مشکلات سے بھرپور تھا، مگر قائد نے ہمت نہیں ہاری۔ قائد کی شخصیت میں کچھ چیزیں نمایاں تھیں۔  وہ بہت نفیس انسان تھے،  صاف ستھرا رہتے،  اچھا بولتے،  اچھے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے اور وہ بہت ملن سار تھے،  نئے نئے لوگوں سے ملنا انہیں پسند تھا،۔ سماجی سرگرمیوں میں شریک رہتے۔ آج کا نوجوان اس تناظر میں کیسے سوچتا ہے، اسے دیکھنا ہوگااور قائد سے سیکھنا ہوگا۔ 

 چالیس سال تک  قائد اعظم محمد علی جناح  گم نام تھے، مگر وہ اپنی ذات کو اس قابل بنا رہے تھے کہ ان کا  عنقریب بہت نام ہوگا۔ اسی طرح آپ اچانک ایک دن اٹھ کر کچھ نہیں بن جاتے بلکہ اس کے پیچھے پوری تیاری اور بیک گراؤنڈ ورک ہوتا ہے، جو آنے والے دنوں میں آپ کی منزل تعین کرتا ہے۔  زندگی کے آخری ایام میں ان کی سرگرمیوں اور ذمہ داریوں میں  بہت اضافہ ہوچکا تھا۔ وہ ایک پوری قوم کی ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر لے چکے تھے اور ساتھ ہی ان کی صحت بھی گر رہی تھی۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور وہ اپنی صحت کا خیال کیے بغیر انہیں جاری رکھتے۔ کئی بار وہ بستر سے سیدھا اٹھ کر جلسوں میں شرکت کرنے چلے جاتے تھے۔ اگرچہ کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہوتی اور یہ بات  ان کی عظیم بہن مادر ملت فاطمہ جناح کے سوا کسی کو معلوم نہ ہوتی تھی۔ وہ اپنے چہرے سے کبھی یہ ظاہر ہی نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ کتنی تکلیف میں ہیں۔ جب بھی فاطمہ انہیں کچھ کہتیں، وہ کہتے فاطمہ میری قوم کو میری ضرورت ہے۔

وہ اصولوں کے پکے آدمی تھے۔ جو کمٹمنٹ کی ہوتی اسے پھر ہر صورت پورا کرتے۔ کھانا، پینا ،آرام کرنا بھول جاتے، مگر وعدہ پورا کرتے۔ آخر ان کی اور مسلمانوں کی  انتھک کوششوں سے پاکستان بن جاتا ہے، مگر اب وہ نہ صرف سنجیدہ بلکہ پریشان بھی تھے۔ ایک طرف ان کی صحت گر رہی تھی اور دوسری طرف پاکستانیوں کو منظم کرنا تھا، مگر وہ صحت کی پرواہ کیے بغیر ہنگامی بنیادوں پر کوششیں کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی صحت مزید گرتی گئی۔ اگر وہ ڈاکٹروں کی بات مان کر آرام کرتے تو شاید یہ قوم اتنی جلدی یتیم نہ ہوتی، مگر وہ بابائے قوم اپنی قوم کو بےسہارا چھوڑ کر کیسے آرام کرتا۔

ابھی ہم نے اپنے  عظیم  قائد  کی زندگی کے آخری لمحات بیان نہیں کیے، ایمبولینس کا وہ واقعہ نہیں لکھا، جوہر با  ضمیر کی روح تک کو جھنجھوڑ  کر  رکھ  دیتا ہے اور بےحسی کی ایک دردناک داستان بیان کرتا ہے اور وہ عظیم قائد ایمبولینس میں جاتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ میں اس ایمبولینس میں جا رہا ہوں، انہیں پریشانی ہوگی اور  پھر۔۔۔۔ قوم سوئی رہتی ہے اور وہ چپ چاپ چلا جاتا ہے۔ قائد اعظم نے یقین، کوشش اور مسلسل کوشش کا دامن کبھی نہیں چھوڑا اور یہ یقین اور کوشش ہماری زندگی میں بھی انقلاب لا سکتے، اگر ہم انہیں اپنا رہنما بنا لیں۔

شیئر کریں
122