چھالوں والے ہاتھ

سعید فاطمہ  (لودھراں)

سن 2012ء میں میرا تقرر سکول میں سائنس ٹیچر کے طور پر ہوا تھا۔ مگر اردو ادب میں غیر معمولی دلچسپی کی وجہ  سے میں  اپنے ‘فری لیکچر’ میں کم از کم اس دن تو اردو کا پیریڈ ضرور ہی لیتی جس دن اردو کے استاد چھٹی پہ ہوتے۔ وہ بھی اسی طرح کا ایک دن تھا۔ اردو کا لیکچر لیتے سمے میں اپنے سٹوڈنٹس کو ایک نظم پڑھانے لگی۔ نظم کا عنوان ‘محنت’ تھا۔ کسانوں کا ذکر ہوا، مزدوروں کا ذکر ہوا۔۔۔ میں نے سوال کیا بھلا کن لوگوں کے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے ہیں۔۔؟ بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔۔۔ ‘ہمارے’۔  یہ جواب میری توقعات کے عین برعکس اور حیرت کے عمیق سمندر میں ڈبو دینے والا تھا۔ میں حیرت، دکھ اور کسک کے ملے جلے جذبات لیے مہر بہ لب، ساکت کھڑی تھی۔ یہ بچے چھٹی جماعت کے تھے۔ میں کچھ لمحوں تک بول نہ پائی۔ بچے بولتے رہے  “ٹیچر ہم جب لکڑیاں کاٹتے ہیں، گھاس کاٹتے ہیں، گندم کاٹتے ہیں نا تو ہمارے ہاتھوں پہ بھی چھالے بن جاتے ہیں”۔ میرا دل تب ‘میں صدقے’ کا ورد کرنے لگا اور آنکھوں میں اشک چپکے سے جھلملا سے گئے۔

جو کچھ بچوں نے بتایا تھا ، مجھے ان کے حرف حرف پہ یقین تھا۔  کیوں کہ مجھے وہ دن یاد تھا جب میں نے ایک بچے کو چھٹی کرنے کی وجہ سے ڈانٹا تھا اور کہا تھا کہ آپ اس پیریڈ میں بیٹھیں گے نہیں بلکہ کھڑے رہیں گے۔  بچہ خاموشی سے کھڑا ہو گیا ۔  شاید میں نے اس سمے اس کی آنکھوں میں نہیں  جھانکا تھا۔ پیریڈ ختم ہوا تو سب بچے کمرہ جماعت سے باہر چلے گئے۔ وہ بچہ دھیرے سے قدم اٹھاتا میرے پاس آیا اور کہنے لگا “ٹیچر!  کل کھیتوں میں کام کرنا تھا اس لیے نہیں آیا  تھا”۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ میرے سامنے کیا اور کہنے لگا  “ٹیچر!  آپ کو میری بات کا یقین نہ آئے  تو میرے ہاتھ پہ بنے یہ چھالے دیکھ لیں”۔  اور اس وقت وہ چھوٹا سا چھالوں والا ہاتھ مجھے دنیا کاسب سے حسین ہاتھ لگ رہا تھا۔

شیئر کریں
1040
6