نعیم احمد ناز
آواز دوست صاحب طرز ادیب، دانشور اور معروف بیوروکریٹ مختار مسعود کی پہلی تصنیف ہے جو جنوری 1973ء کو منصہ شہود پر آئی۔ موضوع و مواد اور زبان و بیان کے اعتبار سے مختار مسعود نے آوازِ دوست میں اسلوبیات کے سارے لوازمات اور تاریخی شعور کا خیال رکھتے ہوئے اپنے مفہوم کو ایسے واضح کیا ہے کہ پڑھنے والا ان کے ایک ایک جملے میں معنی کی کئی جہتیں تلاش کر لیتا ہے۔ مختار مسعود کا کمال یہ ہے وہ سامنے کی باتیں کرتے کرتے قاری کو ایک نئی دنیا اور نئے انکشافات سے متعارف کرا دیتے ہیں۔ آواز دوست کھولتے ہی مولانا روم کایہ شعر قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔
خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آید ایں آواز دوست
اردو نثر میں ایسی تحریر شاذ و نادر ہی ملے گی جس میں مصنف نے مختلف اصناف نثر سے کام لیا ہے۔ کہیں یہ رپوتاژ ہے، کہیں روداد، کہیں تاریخ نگاری و یاد نگاری، کہیں خاکہ و سفر نامہ نگاری جھلکتی ہے۔ آواز دوست نے اہل فکر و درد اور عوام الناس میں اپنی دھوم مچائے رکھی۔ اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ آواز دوست کا انتساب کچھ یوں ہے۔
پرِ کاہ اور پارۂ سنگ کے نام
وہ پرِ کاہ، جو والدہ مرحومہ کی قبر پر اُگنے والی گھاس کی پہلی پتّی تھی اور وہ پارۂ سنگ جو والد مرحوم کا لوحِ مزار ہے۔
کتاب کا صرف انتساب ہی لا جواب نہیں ہے بلکہ اس کا مختصر دیباچہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ
اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں۔ ایک طویل مختصر اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مُراد فکرِ فردا ہے اور خون سے خونِ تمّنا۔
یہ دو مضامین مینار پاکستان اور قحط الرّجال ہیں۔ شاید انہوں نے مینار پاکستان کو فکر یعنی فکر فردا سے تعبیر کیا ہے۔ مینار پاکستان کا منصوبہ ان کی زیر نگرانی تکمیل پایا۔ چنانچہ کتاب کے پہلے باب مینار پاکستان میں اور دوسرے حصے قحط الرّجال میں آٹو گراف بک لیے سطر بہ سطر ان کی گہری شمولیت کا احساس ہوتا ہے۔ حساس دل اور وطن عزیز کی محبت میں سرشار لوگوں کو اس کتاب کی تحریر خون کے آنسو رُلاتی ہے۔ آواز دوست کی تحریر دل میں اتر کر رگ وپے کو حصار میں لے لیتی ہے۔ آواز دوست ادب برائے زندگی اور ادب برائے ادب کا دلکش و دل پذیر امتزاج پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کے جملے اقوال زریں کے طور پر یاد رکھے جانے کے قابل ہیں۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
٭ اہل شہادت اور اہل احسان میں فرق صرف اتناہے کہ شہید دوسروں کے لیے جان دیتا ہے اور محسن دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے۔ایک کا صدقہ جان ہے اور دوسرے کا تحفہ زندگی۔
٭ جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہوجائیں ، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے ، ملک کے بجائے مفاد اور ملت کے بجائے مصلحت عزیز ہو ، اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے ،زندگی سے محبت ہوجائے تو صدیاں یونہی گم ہو جاتی ہیں۔
٭ دراصل جرأت ایک کیفیت اور قربانی اس کیفیت پر گواہی ہے۔جرأت ایک طرز اختیار کانام اور قربانی ایک طریقِ ترک کو کہتے ہیں۔اس ترک و اختیار میں بسر ہو جائے تو زندگی جہاد اور موت شہادت کا نام پاتی ہے۔