ایک در بند تو سو در کھلے گا

شمائل رضا (راجن پور)

کسی گاؤں میں تین بھائی رہتے تھے۔ ان کے گھر پر پھل کا ایک درخت تھا ،جس کا پھل بیچ کر یہ دو وقت کی روٹی حاصل کرتے تھے۔ ایک دن کوئی مسافران کا مہمان بنا۔ اس دن بڑا بھائی مہمان کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھ گیا اور دونوں چھوٹے بھائی یہ کہہ کر شریک نہ ہوئے کہ ان کو بھوک ‏نہیں ہے۔ اس  سے مہمان کا اکرام بھی ہوگیا اور کھانے کی کمی کا پردہ بھی رہ گیا۔ آدھی رات کو جب تینوں بھائی سو رہے تھے، مہمان اٹھا اور ایک آری سے اس درخت کو کاٹ کر اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔   صبح اس گھر میں کہرام مچ گیا۔ سارا محلہ آنے والے مہمان کو کوس رہا تھا، جس نے اس  گھر کی ‏واحد آمدن کو کاٹ کر پھینک دیا تھا۔ چند سال بعد وہی مہمان دوبارہ اس  گاؤں میں آیا تو دیکھا کہ اب اس بوسیدہ گھر پر جہاں وہ مہمان ہوا تھا، اب عالی شان گھر بن گیا تھا۔ ان تینوں بھائیوں کے دن بدل گئے تھے۔ تینوں بھائیوں نے درخت کے پھل نکلنے کے انتظار کی امید ختم ہونے پر زندگی کی گزرو اوقات کے لیے دوسرے اسباب کی ‏تلاش شروع کر دی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ذرائع آمدن میں برکت عطا فرما دی۔ اس لیے کہتے ہیں کہ اگر ایک در بند ہوتا ہے تو اللّہ کی ذات سو نئے در کھول دیتی ہے۔

شیئر کریں
1242
9