ماہم عباس(خانیوال)

پیارے بچو! کسی گاؤں میں ایک ایمان دار شخص رہتا تھا۔ اس کی بیوی نہایت  لالچی تھی۔ ایک دن ایمان دار شخص کھیت میں گیا تو اس نے دیکھا  کہ ایک درخت بہت مرجھایاہوا تھا  اور اس کے پتے بھی سوکھ رہےتھے ۔ اس نےنزدیک بہنے والی ندی سے پانی لیا اور درخت کو ڈالا۔ اس نے یہ کام تین دن کیا۔ چوتھے دن وہ کھیت میں گیا تو اس نے دیکھا کہ جس درخت کو وہ روزانہ پانی دیتا تھا، وہ اب ایک سونے کے درخت میں تبدیل ہو چکا ہے۔  ایمان دار آدمی اس درخت کے قریب گیا تو اچانک وہ بولنے لگ گیا۔ درخت نے ایمان دار شخص سے کہا کہ میری پیاس بجھا کر تم نے مجھ پر احسان کیا ہے۔ بتاؤ اس احسان کے بدلے میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں۔ ایمان دار شخص نے درخت کو جواب دیتے ہوئے  کہا کہ وہ محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ  پالتا ہے۔ بڑی مشکل سے گزارہ کرتا ہوں۔ درخت اس کا مدعا سمجھ گیا اور اپنی دو سونے کی ٹہنیاں اسے دیتے ہوئے کہا کہ یاد رکھنا، اگر  تم دوبارہ یہاں آؤ گے تو میں تمہاری نظروں سے غائب ہو جاؤں گا۔ ایمان دار آدمی سونے کی  ٹہنیاں پا کر خوشی خوشی اپنے گھر چلا گیا۔ اس نے یہ ساری بات اپنی بیوی کو بتائی تو اس نے کہا کہ سونے کی ان ٹہنیوں کو بیچ کر ہم ایک اچھا سا گھر بنا تے  ہیں اور اس کے  علاوہ  تم  اس کے عوض بازار  سے میرے لیے نئی ساڑھیاں اور گہنے خرید لاؤ۔ ایمان دار شخص  نے بازار جا کر ان ٹہنیوں کو فروخت کر دیا۔ پھر اس نے ایک  خوب صورت مکان لیا اور اپنی بیوی کے لیے ساڑھیاں اور گہنے بھی لیے۔ اس کی بیوی  بہت لالچی تھی۔ اس لیے اس نے اپنے شوہر سے ضد کی جا کر سونے کی ایک ٹہنی لے آؤ۔ فرماں بردار شوہر اپنی بیوی کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گیااور کھیت میں اس درخت  کے پاس چلا گیا۔ اس  کے وہاں جانے کی دیر تھی کہ وہ درخت آناً فاناً غائب ہو گیا۔  وہ  بے  نیل مرام گھر واپس آیا تو اس کا گھر ایک جھونپڑی میں تبدیل ہو گیااور اس کی بیوی کی ساڑھیاں اور گہنے بھی غائب ہوگئے تھے۔ سچ کہتے  ہیں کہ  لالچ  بری بلا  ہے۔

شیئر کریں
2513
21