سیت پور: تاریخ، مذہب اور روایات کی دھند میں لپٹا ایک تحیر انگیزقصبہ

نعیم  احمدناز

ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور   سے جنوب کی طرف 17 کلومیٹر  کے فاصلے پر سیت پور کا تاریخی قصبہ واقع ہے۔ سطح  زمین سے بلند یہ پرفضا  علاقہ اپنے صدیوں پرانے  آثار اور کھجور  کے  درختوں کے ساتھ آپ کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یہاں ہر پل ایک گمبھیر خاموشی طاری رہتی ہے جسے صرف ہوا کی سرسراہٹ یا پرندوں کی چہچہاہٹ توڑتی ہے۔ سیت پور کا قصبہ دو دریاؤں  کے حسین سنگم پر واقع ہے، اس کے مشرق میں دریائے چناب جب کہ مغرب میں دریائے سندھ بہتا ہے۔ سیت پور اپنی  زرخیزی  اور  شادابی  کے  حوالے سے بھی  جانا جاتا  ہے۔ بظاہر یہ  ایک عام سا شہر  نظر آتا  ہے  مگر تاریخ کے گرد آلود صفحات پلٹتے جائیں تو ٹیلے پر  آباد اس قصبے سے لپٹی تحریر کی نت نئی داستانیں سامنے آتی چلی جاتی ہیں۔

سیت پور کا شمار برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کا ذکر ہندوؤں کی  قدیم مقدس کتاب رگ وید میں بھی ملتا ہے جس  کے مطابق  آریائی  قوم جن دیوتاؤں کی  پوجا کرتی تھی، انہی کے  ناموں سے  شہروں کو منسوب کر دیتی تھی۔ بعض روایات کے مطابق رگ وید کے کچھ منڈل اور منتر  بھی اسی سرزمین  پر تخلیق  ہوئے۔ سیت پورتین سو سال قبل مسیح سیتا رانی کے نام پر آباد ہوا تھا جو اس وقت کے راجہ سنگھ کی بہن  تھی۔ راجہ سنگھ کی دوسری بہن اوچا رانی کے نام پر  اوچ شریف شہر آباد کیا گیا۔

بعض تاریخی روایات  کے مطابق سکندراعظم جب ایران کے آخری کیان بادشاہ دارا سوم کو شکست دے کر اور  پنجاب میں راجہ پورس کو شکست دیتے ہوئے ملتان پہنچا تو ملہی قوم کے ہاتھوں زخمی ہوا اور پھر کچھ روز سیت پور میں قیام کے بعد بلوچستان کے راستے اپنے وطن لوٹ گیا۔ 1445ء میں گورنر ملتان بہلول خان لودھی دہلی کا حکمران بنا، اس نے اپنے ایک رشتے دار اسلام خان کو سیت پور کا حاکم بنا دیا۔ اسلام خان کی یہ سلطنت ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، راجن پور، کوہ سلیمان کے مشرقی اور سندھ کے شمالی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ نہڑ خاندان نے پندر ھویں اور سولہویں صدی تک اس شہر پر حکمرانی کی۔

اسلام خان کے تین پوتوں میں لڑائی ہوئی تو انہوں نے سلطنت کو تین حصوں میں بانٹ لیا۔ موجودہ تحصیل علی پور سلطان محمد خان کے  صاحب زادے طاہر  محمد  خان نہڑ کے  حصے  میں آئی۔ اس نے سیت پور کو  اپنا دارالحکومت بنایا۔ طاہر محمد  خان اپنی بے پناہ سخاوت، رحم  دلی اور دریا دلی کی بنا پر وہ طاہر محمدخان سخی  کے نام سے جانا جاتا تھا۔ انہوں نے کثیر سرمائے سے اپنے والد سلطان محمد خان کا مقبرہ اور شاہی مسجد تعمیر کروائی جنہیں فن تعمیر کا شاہکار سمجھا جاتا  ہے۔ مقبرے میں طاہر محمد خان سخی اپنے والد کے پہلو میں ہی ابدی نیند سو رہے ہیں لیکن سخاوت اور رحم دلی  کے علاوہ ان کی تعمیر کردہ شاہی مسجد اور مقبرےنے انہیں اب تک تاریخ میں زندہ رکھا ہوا ہے۔

تین صدیوں تک قائم رہنے والی نہڑ خاندان کی حکمرانی اندرونی و بیرونی خلفشار کے باعث اوائل روز سے ہی مشکلات سے دو چار رہی۔ ڈیرہ غازی خان کے بلوچ قبائل بھی ان کے لیے خطرے کا باعث بنے رہے۔ نہڑ خاندان کے آخری حکمران کا نام بخشن خان تھا۔ لالہ ہنو رام کی کتاب گل بہار کے مطابق نہڑ خاندان کی حکومت اس وقت کمزور  ہو گئی جب نادر شاہ  کے دور میں شیخ محمد راجو اول  نے اپنی سلطنت کا اعلان کر دیا۔ شیخ محمد راجو اول سیت پور کا مخدوم اور نہڑ  خاندان کا مشیر تھا۔ بہاول پور  گزیٹیر کے مطابق شیخ محمد راجو اول نے نادر شاہ سے سیت پور کی سلطنت کا پروانہ اپنے نام لکھوا لیا اور یوں نہڑ خاندان کا  عہد حکومت اختتام پذیر  ہوا۔ شیخ محمد نوید اسلم کی کتاب پاکستان  کے آثار قدیمہ کے مطابق 1781ء میں نواب آف بہاول پور  بہاول خان ثانی  نے شیخ محمد راجو ثانی کے دور میں جتوئی پر قبضہ کر لیا۔ 9 سال بعد جب دریائے سندھ کا رخ سیت پور  کے مغرب میں ہوا تو نواب بہاول پور  نے علی پور، شہر سلطان اور خیرپور سادات  کے علاقے بھی سیت پور سے چھین کر بہاول پور  میں شامل کر  لیے۔ 1816ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ  نے بچی کھچی سلطنت کو  قبضے میں لے لیا یوں ماضی کا دارالحکومت معمولی سے علاقے تک محدود ہو کر رہ گیا۔

پندرہویں صدی  کے  اواخر میں تعمیر ہونے والی بادشاہی مسجد اور مقبرہ طاہر خان ناہڑ اپنے فن تعمیر اور دلکشی کی بناء  پر دنیا بھر میں سیت پور کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔ نفیس اینٹوں سے بنائے گئے 45 فٹ بلند چبوترے پر قائم مقبرہ اسلامی طرز تعمیر  کا خوب صورت شاہکار ہے۔ یہ مقبرہ ہشت پہلو اور ملتان کے مقبرہ حضرت شاہ رکن عالم سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔ زمین سے اپنی چوٹی تک مقبرے کی تین واضح حد بندیاں نظر آتی ہیں۔ مقبرے کا باہر کا منظر بڑا حسین اور شاندار ہے۔ اس میں مربع، مستطیل اور چوکور شکل میں دیدہ زیب  ٹائلیں لگی ہیں۔ مقبرے کے  پہلے حصے کے  آخر  میں واضح  دو دھاریاں بنائی گئی ہیں جن میں نیلی اور سفید ٹائلوں کی  آمیزش  ہے۔ دوسرا  حصہ زیادہ رنگین اور روشن جبکہ تیسرے حصے میں گنبد کو سفید ٹائلوں  سے مزین کیا گیا ہے۔۔ گنبد کے آخر پر موصل کنڈکٹر لگایا گیا ہے جو اسے آسمانی بجلی سے محفوظ رکھتا ہے۔ مقبرے کا اندرونی حصہ سبز، گہرے نیلے اور سفید رنگ کی مربع، روغنی ٹائلوں اور دل کش نقاشی  سے  جیومیٹری  کے اصولوں  کے مطابق پھول  دار طریقے سے سجایا گیا ہے۔ مقبرے  کا  نصف کرہ گنبد ہشت پہلو بنیاد پر قائم  ہے۔ مقبرے میں روشنی  کے لیے آٹھ محرابی  راستے بنائے  گئے ہیں۔

طاہر  محمد خان کے مقبرے  کے  قریب ہی شاہی مسجد واقع  ہے۔ اس مسجد کی خوب صورت پیشانی سفید،  زرد اور روغنی  ٹائلوں سے آراستہ ہے۔ ہر ایک حصے پر  ایک گنبد بنایا گیا ہے۔ مسجد کے ہر حصے کے  لیے ایک ایک دروازہ  ہے۔ درمیانی دروازے پر  خوب صورت محرابیں بنائی گئی ہیں۔ اسی طرح  باقی تین دروازوں  پر  بھی تین تین  محرابیں  بنائی گئی ہیں۔

سیت پور تاریخ، مذہب اور روایات کی دھند میں لپٹا ایک ایسا تحیر انگیز شہر ہے جس کی شکستہ دیواروں کے طاقچوں میں صدیوں پرانے بجھے چراغوں کی سیاہی دراصل وقت کے صفحات پر لکھی ہزاروں سال کی تاریخ کی انمٹ روشنائی ہے۔

شیئر کریں
199
1