عاصمہ یاسمین (مظفر گڑھ)
پیارے بچو! غیبت ایک معاشرتی برائی ہے جو نہ صرف فرد کو اخلاقی طور پر پست بناتی ہےبلکہ معاشرے کی اجتماعیت کو بھی مجروح کرتی ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اس کی تعلیمات کا بڑا مقصد مسلمانوں کی جان و مال کی سلامتی کے ساتھ ساتھ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا بھی ہے تاکہ معاشرہ کے باہمی تعلقات خوش گوار رہ سکیں۔ اسلام نے ہر اس کام کو حرام قرار دیا ہے جس سے دوسروں کی عزت و آبرو پر حرف آتا ہو اور ان کے باہمی تعلقات میں ناخوش گواری اور کھینچاؤ پیدا ہو۔ غیبت سے چونکہ دوسروں کی ساکھ مجروح ہوتی ہےاور باہمی تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام میں غیبت کو حرام قرار دیا گیا ہے اور سخت تاکید کی گئی ہے۔سورۃ الحجرات میں ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان والو گمان سے بچو۔ بےشک بعض گمان گناہ ہیں۔ اور جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو۔ کیا تم میں سے کسی کو یہ پسند ہےکہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ پس تم کو گھن آتی ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ غیبت زنا سے زیادہ شریر ہے،کیونکہ آدمی زنا کرتا ہےپھر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کو معاف کر دیتا ہےاور غیبت کرنے والے کی اس وقت تک مغفرت نہیں ہوگی جب تک وہ شخص اس کو معاف نہ کر دےجس کی اس نے غیبت کی ہے۔الغرض جس طرح غیبت کرنا شریعت میں حرام ہے،اس طرح غیبت سننا بھی حرام ہے۔لہذااگر کوئی شخص کسی کے سامنے کسی کی غیبت کرے تو چاہیے کہ اس کو فوری طور پر روک دے۔ اگر روک سکنے کی استطاعت نہ ہو تو کوشش کرے کہ مجلس سے اٹھ جائے۔ اگر وہ بھی نہ کر سکےتو کم از کم دل میں برا جانے۔ اللہ ہم سب کو غیبت جیسے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین