بنجوسہ جھیل کی سیر

قراۃالعین صدیقی (لودھراں)

گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو بچوں کی فرمائش پر ہم نے بنجوسہ جھیل کی سیر کا منصوبہ بنایا۔ بنجوسہ جھیل راولا کوٹ آزاد کشمیر سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے۔ ناشتے کے بعد ہم سب جھیل کی جانب روانہ ہوئے۔ دس کلومیٹر پر محیط میٹل روڈ پر ہمارا سفر جاری رہا۔ سڑک کے دونوں جانب ہرے بھرے درخت اس طرح ایک دوسرے کی جانب جھکے ہوئے تھے جیسے بغل گیر ہونا چاہتے ہوں۔ یا ایک سائیڈ سے دوسری سائیڈ کے درختوں کے کانوں میں باتیں کرنا چاہتے ہو۔ درختوں کی اس شیپ نے سڑک کے کچھ حصے کو بالکل انڈر پاس کی شکل دے دی تھی، جس  کے سائے میں سے گزرتی گاڑیاں دل کش منظر  پیش کر رہی تھیں۔ آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم راولاکوٹ سے بنجوسہ جھیل پہنچ چکے تھے۔ یہ پورا پکنک سپاٹ بنا ہوا تھا۔ جہاں پارکنگ، ہوٹلنگ وغیرہ کی تمام سہولیات موجود تھیں۔

چاروں طرف سے پائن اور سرو کے درختوں پر مشتمل گھنے جنگل کے بیچوں بیچ یہ مصنوعی جھیل قدرت کے ساتھ ساتھ اس کے بنی نوع انسان کو عطا کی ہوئی ذہانت کا شاہکار تھی۔ خاموشی کے ساتھ جھیل کنارے درختوں کے جھنڈ میں بنے لکڑی کے بینچ پر بیٹھے ہوئے سامنے کا منظر دل میں اترتا جا رہا تھا اور ذہن و دل کے دریچے کھل رہے تھے۔ عقل پر پڑی دھند چھٹنے لگی تو کوئل  کی سریلی آواز سنائی دی۔ اردگرد درختوں پر میری نظروں  نے اسے تلاشنے کی اپنی تئیں کوشش کی مگر وہ نظموں اور کہانیوں کے پراسرار کردار کی طرح سے نظروں سے اوجھل ہی رہی، بس سریلی آواز سناتی رہی جیسے کہہ رہی ہو کہ اسے دیکھنے کے لیے  ابھی دل و دماغ پر موجود دھند کو مزید چھٹنا پڑے گا ورنہ وہ نظر نہیں آئے گی۔ ہم سب جھیل میں کشتی رانی سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ پانی کے سکوت میں چلنے والی واٹر بوٹس اس میں چند لمحوں کے لیے ہل چل مچا دیتی تھیں اور اس کے بعد پانی پھر  سے اپنی جگہ پُرسکون ہو جاتا تھا۔ ایک کنارے پر جھیل میں سفید بطخوں کا جوڑا اپنی مستی میں مگن تیرتا اور ڈوبکیاں لگاتا ہوا کھیلتا نظر آ رہا تھا۔ پانی کے کناروں پر چھوٹے چھوٹے آبی پھول کِھلے ہوئے تھے جو  جھیل کی دل کشی میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔ بارشوں کی کمی کے باعث جھیل کا پانی کم ہو رہا تھا اور اس کے ساتھ ملحقہ مصنوعی آبشار بند پڑی تھی۔ بوٹنگ کے بعد ہم سب نے مقامی ہوٹل سے کھانا کھایا۔ بعدازاں سب بچوں نے ہرے بھرے جنگل میں خوب گیمز کھیلیں۔

بلند و بالا درختوں سے آراستہ گھنے جنگل نما جھیل کے پاس بیٹھے ہوئے ہر چیز پر عجیب سی خاموشی اور سکوت کا سا گمان ہونے لگتا تھا۔ اور اس سکوت میں صرف پرندوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں یا کبھی کبھی کسی گزرتی کشتی کا شور اس سکوت کو توڑتا دیکھائی دیتا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ پیڑ ، پودے، پھولوں کی پتیاں اور گھاس بھی دھیمے دھیمے سانس لے رہی ہو۔ جیسے آنے والے سیاحوں کو موقع دیتی ہو کہ وہ بھی اس خاموشی میں موجود سکون کا حصہ بن سکیں اور اپنے  پروردگار کی نعمتوں پر شکر گزار ہو سکیں۔

اس لمحے جی چاہتا تھا کہ وقت یہاں ہی تھم جائے ۔ ماحول پر چھایا یہ سکون میری رگ و جاں میں اتر جائے۔ مٹی کی نم دار خوشبو میری سانسوں میں بھر جائے یا میں کسی پرندے کی طرح ان بلند و بالا درختوں میں اِدھر سے اُدھر آزادی سے اڑتی پھروں۔

ایک گہرا سانس بھر کر  اس لمحے کو اپنے اندر قید کرتے ہوئے میں نے کچھ دیر کو آنکھیں بند کیں اور پھر کھولتے وقت ایک آہ بھری۔۔ واہ اللہ تیری شان۔۔ اپنی مخلوق پر کیے گئے اللہ تعالیٰ  کے لاکھوں کرموں میں سے ایک کرم اس کی تخلیق کردہ اسرار و رموز سے لبریز یہ خوبصورت دنیا بھی ہے جسے جتنا مسخر کیا جائے  اس کی نعمتوں اور رحمتوں پر یقین اور بڑھنے لگتا ہے۔ پھر اس پر اور کرم یہ کہ اس  نے اس خوبصورتی کو دیکھنے والی آنکھیں بھی عطا کیں۔ اس کی خلقت کی آواز سننے اور اس کے سُروں کو  محسوس کرنے کے لیے سماعتیں عنایت کیں۔ اس خوبصورتی کو محسوس کرنے والا حساس دل عطا کیا۔ اسے بیان کرنے اور اسے  سراہنے کے  لیے الفاظ عطا کیے۔ ان الفاظ کو دل میں اتارنے کے لیے تاثیر پیدا کی۔ بلا شبہ یہ میرے رب کا  ہی کرم ہے جو آنکھیں ان رعنائیوں اور دل کش مناظر کو دیکھ سکتی ہیں اور ایسا دل دیا جو ان نعمتوں اور رحمتوں پر شکر گزار ہو سکے۔ شام کو بچوں  نے ادھر سے آئس کریم اور جوسز لیے۔ اور پھر ہماری واپسی ہوئی۔ بلاشبہ یہ ایک خوش گوار دن تھا۔

شیئر کریں
1363
16