ہاجرہ سعید (بہاول پور)

یہ آج سے تین سال پہلے کی با ت ہے۔ میرے چچا جان کافی عرصے بعد سعودی عرب سے واپس آئے تو ہم ان سے ملنے ان کے گھر گئے۔ اپنی چچا زاد بہنوں سے گپ شپ کرتے ہوئے ہم نے چھپن چھپائی کھیلنے کا سوچا اور گھر کی دوسری منزل پر چلے گئے۔ نمرہ کی باری تھی۔ ہم سب ایک کمرے میں چھپے اور کمرے کو اندر سے لاک کر دیا۔ ہمیں ڈھونڈنے کے لیے اس نے ہر جگہ چھان ماری۔ اب صرف ایک کمرہ ہی رہ گیا تھا جس میں ہم چھپے ہوئے تھے۔ نمرہ نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر دروازہ اندر سے بند تھا جس سے  اسے معلوم ہو گیا کہ ہم اس کمرے میں ہی ہیں۔ اس کمرے میں ایک شیشے کی کھڑکی تھی جو ٹوٹی ہوئی تھی۔ نمرہ اس کھڑکی سے آ کر بولی کہ دروازہ کھولو ورنہ میں کھڑکی سے اندر آ جاؤں گی۔ ہم نے کہا کہ آ جاؤ۔ اس نے کمرے میں آنے کے  لیے  ٹوٹی کھڑکی سے اپنا ہاتھ اندر گھسایا تو میری ایک کزن نے اس کا ہاتھ کھینچ لیا۔ اسی کھینچا تانی میں کھڑکی کا شیشہ اس کے بازو میں گھس گیا۔ درد کی شدت سے نمرہ چلانے لگی۔ ہم نے جھٹ سے کمرے کا دروازہ کھولا۔ نمرہ کھڑکی سے لٹکی ہوئی تھی۔ ہم نے اسے نیچے اتارا۔ اس کا بہت خو ن بہہ چکا تھا۔ ڈر کے مارے ہم کافی دیر تک وہیں ٹھہرے رہے کہ اب کیا کیا جائے، ہمیں ڈانٹ سے ڈر لگ رہا تھا۔ نمرہ ہوش کھو نے لگی تھی کہ میری چھوٹی کزن بھاگی اور سب کو بلا کر لے آئی۔ میرے ابو نمرہ کو فوراً ہسپتال لے گئے۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ہسپتال میں نمرہ کو ڈرپ لگی۔ پیارے بچو! اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملا کہ آئندہ جو بھی مشکل پیش آئے، اس کی بابت اپنے بڑوں کو لازمی بتانا چاہیئے، وگرنہ ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

شیئر کریں
1029
8