کوئی عمل اپنی حدود سے تجاوز کرے تو رحمت کے بجائے زحمت بن جاتا ہے۔ پانی زندگی کا پیام لے کر آتا ہے لیکن اگر کناروں سے اچھل پڑے تو تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ حال ہی میں کچھ ایسی ہی صورتحال کا پاکستان کے بہت سے علاقوں کو سامنا کرنا پڑا جب مون سون کی بارشوں اور دریاؤں کے بہتے پانیوں نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں، لوگوں کو گھر سے بے گھر کر دیا، در بدر کر دیا، فصلیں تباہ کر دیں، بیماری اور موت پھیلا دی۔ حکومتی ادارے اور بہت سی فلاحی تنظیمیں اس صورتحال سے نبردآزما تو ہیں لیکن اس کی سنگینی کے سامنے انسانی اور مالی وسائل کم پڑتے چلے جا رہے ہیں۔

اس المیے پر ماتم کرنے سے زیادہ اب ضروری ہے کہ اس کی وجوہات کا تعین کیا جائے تاکہ آئندہ تو کم از کم اس کا تدارک کیا جا سکے، اس سے بچا جا سکے۔ یار لوگ تو اسے ناگہانی آفت، امتحان، آزمائش یا ہمارے اعمال کا نتیجہ قرار دے کر اس سے بری الذمہ ہو جائیں گے۔ کاش معاملہ اتنا ہی آسان اور سیدھا سادھا ہوتا۔ اپنےدامن میں جھانکیے اور آپ پر منکشف ہو گا کہ یہ سب ہمارا ہی کیا دھرا ہے۔ جنگل پہلے تو موجود ہی نہیں، اور جو ہیں انہیں بے دریغ کٹائی کا سامنا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ ملک موسمیاتی تبدیلی سے دوچار ہے، بارشیں بھی معمول سے زیادہ یا کم ہوتی ہیں، درجہ ء حرارت ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور اس عالم میں جب طوفانی بارشوں اور سیلاب کا سامنا کرنا پڑ جائے تو درختوں کی ڈھال موجود نہیں ہوتی اور زمین کا کٹاؤ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہم نے آبی گزر گاہوں پر تجاوزات بلکہ، اس سے بھی بڑھ کر عمارات، کی تعمیر شروع کر رکھی ہے۔ یہ پانی جب بپھرتا ہے تو ان سب کو نیست و نابود کرتا چلا جاتا ہے جس سے جانی نقصان بھی ہوتا ہے اور مالی بھی۔ اس ساری صورتحال کو مزید خراب کردیتا ہے فیکٹریوں اور گاڑیوں سے خارج ہوتا ہوا دھواں۔

اب بھی وقت ہے، ہم چاہیں تو موسمیاتی تبدیلی کی بابت آگہی پھیلا سکتے ہیں، اس کی وجوہات کا تدارک کر سکتے ہیں، حفاظتی اقدامات بروئے کار لا سکتے ہیں اور چاہیں تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے اپنی بستیوں کو اجڑتا دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کی مرضی۔

شیئر کریں
100