محمد شاہد (مظفرگڑھ)

پیارے بچو! میرا نام ہینی ہے۔ جب میں چھوٹی سی تھی تو ایک گاؤں میں اپنے ماما، پاپا اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ ہم وہاں بہت خوش تھے۔ ماما مرغی کے ساتھ ہم کھیتوں میں، گلیوں میں، آنگن میں بھاگتے دوڑتے رہتے۔ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ لیکن دوستو! وقت سداکب ایک سا رہتا ہے۔ خوشی اور غم کا ساتھ ہمیشہ سے رہا ہے۔ جب میں اور میرے بہن بھائی بڑے ہوئے تو ہماری غریب مالکن نے ہمیں ایک شخص کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اس شخص نے ہمیں شہر لے جا کر چکن بیچنے والے کی دکان پر بیچ ڈالا۔ یہاں ہمیں ایک گندے سے ڈربے میں جہاں پہلے ہی بہت ساری مرغیاں قید تھیں، بند کر دیا گیا۔ اس تنگ سے گندے ڈربے میں نہ ڈھنگ کے کھانے کو ملتا نہ پینے کو۔ وہاں ہمارا دم گھٹ رہا تھا۔سانس لینے تک کی جگہ نہ تھی۔ وہاں جو طاقت ور تھے کمزوروں کو مار رہے تھے۔ کمزور کو نے کھدروں میں چھپ رہے تھے۔ دکان پر کوئی گاہک آتا تو دکان کا مالک ہم میں سے کسی ایک کو پکڑ لیتا۔ پکڑا جانے والا چیختا چلاتا مگر دکان دار اسے ہماری نظروں کے سامنے بے دردی سے ذبح کر ڈالتا۔ ہم بے بسی سے یہ سب دیکھتے رہتے۔ اس کا تڑپنا دیکھتے مگر کچھ نہ کر سکتے۔ آہستہ آہستہ میرے سارے ساتھی ذبح  ہو گئے۔ آخر میں اکیلی رہ گئی۔ میں ڈر رہی تھی۔ کیونکہ اب میری باری تھی۔ مجھے اپنی ماما، اپنے بہن بھائی اور سہیلیاں یاد آرہی تھیں۔ وہ کھیت کھلیان، وہ آنگن جہاں میں ہنستی کھیلتی رہتی تھی، یاد آرہے تھے مگر میں بے بس تھی۔ پھر دکان میں ایک گاہک داخل ہوا۔ وہ نظروں ہی نظروں میں مجھے تول رہا تھا۔ اس نے دکان دار سے کچھ کہا۔ دکان دار اُٹھ کر میری طرف بڑھا۔ میں ڈر کر ایک کونے میں دبک گئی۔ دکان دار نے ڈربے کا دروازہ کھول کر ہاتھ آگے بڑھایا۔ میں چیخی چلائی مگر اس نے مجھے دبوچ لیا۔ پھر اس نے میرے پروں کو بے دردی سے موڑ کر اپنے پاؤں کے نیچے رکھا۔ ایک ہاتھ سے میرا سر پکڑا اور ایک لمبی سی چھری سے میری گردن کاٹنے کی تیاری کرنے لگا۔ عین  اُسی وقت ایک اور گاہک آن پہنچا۔ دکان دار اس سے باتوں میں مصروف ہو گیا۔ اس کی گرفت میرے پروں پر ڈھیلی پڑگئی۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور ایک جھٹکے سے خود کو اس کی گرفت سے آزاد کرا لیااور چیختی چلاتی ایک طرف کو بھاگ نکلی۔ دکان دار میرے پیچھے بھاگا، لیکن میں اُڑتی بھاگتی دکان دار کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ بھاگتے بھاگتے میں ایک پارک میں جا پہنچی اور جھاڑیوں میں خود کو چھپالیا۔ میں کتنی ہی دیر وہاں چھپی رہی۔ پھر ایک بلی نے مجھے وہاں چھپے دیکھ لیا۔ وہ مجھے پکڑنے کے لیے لپکی، میں اس سے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگی۔ پارک میں بہت سے بچے کھیل رہے تھے۔ ان کی مجھ پر نظر پڑگئی۔ انھوں نے بلی کو بھگا دیا اور ایک بچہ مجھے پکڑ کر اپنے گھر لے گیا۔ وہ بچہ اور اس کے گھر والے بہت اچھے تھے۔ انھوں نے مجھے دانا کھلایا۔ میرے لیے لکڑی کا چھوٹا سا گھر بنا دیا۔ میں بھی انھیں روزانہ ایک انڈا دیتی۔ پھر انھوں نے میرے بہت سارے انڈے اکھٹے کر لیے اور میں ان انڈوں پر بیٹھ گئی۔ اکیس بائیس دن بعد انڈوں سے چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے چوزے نکل آئے۔ میں ان چوزوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ وہ لڑکا اور سب گھر والے بھی میرے ننھے منے بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ دوستو! اب میرے بچے گھر میں بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں۔ میں ان کی پیاری پیاری شرارتوں سے خوش ہوتی ہوں اور ان کا بہت خیال رکھتی ہوں، کیونکہ چیل کوّے میرے ننھے بچو ں کے دشمن ہیں۔ اس وقت بھی ایک چیل اُڑتی ہوئی اس طرف آ رہی ہے۔ مجھے اس سے اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہے۔ اس لیے پیارے بچو! خدا حافظ۔

شیئر کریں
614
5