آمنہ ندیم  (لودھراں)

ماجد بہت شرارتی بچہ تھا۔ وہ ہر وقت اپنی شرارتوں سے دوسروں کو تنگ کرتا رہتا تھا۔ اس کے گھر والے تو اس کی حرکتوں سے پریشان تھے ہی، لیکن سکول میں اس کے اساتذہ اور ہم جماعت طلباء بھی اس کی شرارتوں سے زچ تھے۔ وہ تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کی شرارتوں کی وجہ سے اس کی جماعت میں پچھلے چار ماہ میں تین ٹیچر تبدیل ہو چکے تھے۔ تمام اساتذہ ماجد کی شرارتوں کی وجہ سے اس سے نالاں رہتے تھے اور پیار سے بات نہیں کرتے تھے۔   وہ ہر بار اپنی شرارتوں کی وجہ سے ٹیچر کو کلاس چھوڑ کر جانے پر مجبور کر دیتا تھا۔ ایک دن ایک نئی استانی اس جماعت کے بچوں کو پڑھانے آئی۔ وہ ماجد کے بارے میں بہت قصے سن چکی تھی۔ سب نے اسے خبردار کر دیا تھا کہ وہ ماجد سے ہوشیار رہے۔ مس عالیہ نے ماجد کو اپنے طریقے سے سدھارنے کا سوچا۔ پہلے دن مس عالیہ نے سب بچوں سے باری باری ان کے نام پوچھے۔ جب ماجد کی باری آئی تو مس عالیہ نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا: آپ کا نام بہت پیارا ہے ماجد، آپ بہت اچھے بچے ہیں، آج سے آپ اس جماعت کے مانیٹر ہوں گے اور اس جماعت کو لیڈ کرو گے، سب کو چپ کرواؤ گے اور ان کے ہوم ورک مجھے لا کر دو گے۔ مس عالیہ کی باتیں سن کر ماجد بہت حیران ہوا کہ آج تک کسی نے اس سے پیار سے بات نہیں کی تھی، بلکہ سب اسے ڈانٹتے آئے تھے مگر مس عالیہ نے مانیٹر بنا دیا۔ اس دن کے بعد ماجد نے مس عالیہ کا بھروسہ نہیں توڑا اور ایک اچھا بچہ بن گیا۔ وہ خود روزانہ ہوم ورک بھی کر کے آنے لگا اور شرارتیں کرنا بھی چھوڑ دیں۔ سچ ہے کہ مار ہر مسئلے کا حل نہیں ہے۔ لہجے کی مٹھاس اور بھروسہ کسی کو بھی بدل سکتا ہے۔ ہمیں ہر ایک کے ساتھ پیار سے پیش آنا چاہیے۔ بچوں کو ڈانٹنے اور مار سے وہ مزید باغی ہو جاتے ہیں۔ جیسے مس عالیہ نے بہت سمجھ داری سے ماجد کو ایک اچھا بچہ بنایا ایسے ہی ہم بھی اپنے رویے سے دوسروں کو سیدھے راستے پر لا سکتے ہیں۔

شیئر کریں
355
1