معروف گلوکار، نعت خواں اور دینی سکالر جنید جمشید سے  آدھی  ملاقات

جنید جمشید نامور گلو  کار اور نعت خواں تھے۔ انھوں  نے موسیقی گروپ وائٹل سائنز کے  نمائندہ گلو کار کی  حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ 1987ء میں ملی  نغمہ  دل دل  پاکستان کی  ریلیزکے  ساتھ ہی وہ  شہرت کی  بلندیوں  تک پہنچ گئے، البتہ 2004ء  میں  انھوں  نے  موسیقی  کو  خیرآبادکہہ کر دینی  تعلیمات اور  تبلیغ کا راستہ اختیار کیا۔ پھر  وہ نعت خواں اور تاجر کے طور پر  جانے  جاتے رہے۔ جے  ڈاٹ بوتیک کے مالک تھے، جس کی  شاخیں ملک بھر میں ہیں، 7 دسمبر 2016ء کو پی  آئی  اے  فلائٹ661 کے حادثے میں  وفات پا گئے۔ 2018ء میں بعدازمرگ حکومت پاکستان کی طرف  سے ستارۂ امتیاز  سے نوازا گیا۔

٭٭٭٭٭

روشنی:آپ کامکمل نام؟

جنید جمشید:جنید جمشید

روشنی:لوگ آپ کو پیار سے کس نام سے پکارتے ہیں؟

جنید جمشید: جے جے کی  عرفیت سے۔

روشنی:آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

جیند جمشید: 3ستمبر،1964ءکراچی۔

روشنی:آپ کے والدگرامی  کا نام؟

جنید جمشید:جمشید اکبر خان۔

روشنی:والدہ صاحبہ کا نام؟

جنید جمشید: نفیسہ اکبر۔

روشنی:والدین میں سے کس کے زیادہ قریب رہے؟

جنید جمشید: اپنی والدہ  محترمہ  کے۔

روشنی :بچپن میں کس سے زیادہ مار کھائی؟

جنید جمشید:امی ابو، دونوں  سے۔

روشنی: کس بات پر امی نے سب سے زیادہ مارا؟

جنید جمشید: جھوٹ  بولنےپر۔

روشنی: بھائیوں اور بہنوں  کی  تعداد ؟

جنید جمشید: چار بہن بھائی  (تین بھائی  اور ایک بہن) ہیں

روشنی:بچپن کیسا گزرا؟ شرارتی تھے یا سیدھے سادے ؟

جنید جمشید:  میں بہت شرارتی تھا۔

روشنی: بچپن کی کوئی یادگار شرارت ؟

جنید جمشید: میں  سوچتا تھا کہ واش بیسن کے اندر  جو نلکا لگا ہواہے اِس میں سے پانی کیسے نکلتا ہے۔تومیں نے اِس کا راز جاننے کے لیے بیسن ہی اکھاڑ ڈالا۔ اب جب پانی کا فوارہ نکلا تو بجائے پانی کو روکنے کے، میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ جب پانی پھیلا تو سب کو معلوم ہوا کہ کیا کارنامہ انجام دیا ہے میں  نے۔ یہ شرارت جب بھی یاد آتی ہے تو میں مسکرا اٹھتا ہوں۔

روشنی:ایسی کوئی  شرارت، جس پر آپ کو بہت افسوس ہوا ہو؟

جنید جمشید:ابونے گاڑی خریدی، وہ چھری سے اسٹارٹ ہو جاتی تھی۔چھوٹے بھائی ہمایوں نے  کہا کہ جنید بھائی! چلوگاڑی چلاتے  ہیں۔میں نے کہا کہ مجھے چلانی  نہیں آتی۔ لیکن ہمایوں کے اصرار پر گاڑی میں بیٹھ گئے۔اب چھوٹے بھائی عمرکو ہم نے پچھلی سیٹ پربٹھایا۔ ہمایوں نے اسٹارٹ کی اور میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ہمایوں نے دیکھا کہ آر لکھا ہے توریورس کرلی۔ جب گاڑی باہر نکال لی تو اب بریک اور رفتار کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ خیر جب  کسی طرح واپس گیراج میں گاڑی لائے تو گاڑی دیوار میں دے ماری۔ شور ہوا  تو  سب بھاگے آئے۔  یوں سب کو پتا چل گیا کہ ہم نے گاڑی چلائی ہے۔ امی اِس خیال سے بہت زیادہ روئیں کہ اگر ہمیں کچھ ہوجاتا تو؟ عمر کو انھوں نے فوراً  گود میں اٹھالیا۔ اُس دِن ہمیں بہت مار پڑی تھی۔

روشنی: والدہ کے انتقال کے وقت کیا آپ اُن کے پاس تھے؟

جنید جمشید: نہیں، میں کینیڈا میں تبلیغی جماعت کے ساتھ تھا۔

روشنی: والدہ کی کون سی بات آپ کو زیادہ یاد آتی ہے؟

جنید جمشید:امی جان کی باتیں تو  ہر وقت  ہی یاد آتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ امی ہمیشہ اس جگہ بیٹھا کرتی تھیں جہاں سے میں گھر سے باہر نکل رہا ہوتا تھا۔اور میں  کبھی جلدی میں ہوتا تو  بس نکل بھاگنے کی کرتا تو امی دور سے آواز لگاتیں: جنید صاحب! تو پھر میں لوٹ کر واپس آتا تھا۔ امی کہتیں: بیٹا کتنی بار کہا ہے کہ  مجھے بتائے بغیر باہر مت جایا کرو، پھر وہ پیار کرتیں۔میں کہتا : امی اِس وقت جلدی میں ہوں۔ اب  میرا دِل چاہتا ہےکہ میری امی زندہ ہوتیں تو میں کہتا کہ امی میں کہیں نہیں جاؤں گا ،  بس آپ کے قدموں میں بیٹھا رہوں گا۔

روشنی: آپ نے ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

جنید جمشید:انٹرنیشنل بورڈنگ ہائی اسکول، ینبہ، سعودی عرب۔

روشنی: تعلیمی قابلیت؟

جنید جمشید:یونیورسٹی آف انجئینرنگ اینڈٹیکنالوجی ، لاہورسے ڈگری حاصل کی۔

روشنی: آپ کو موسیقی کا شوق کیسے ہوا؟

جنید جمشید:مجھے بچپن ہی سے گٹاربجانے کا شوق تھا۔ایک دن روحیل شہزاد نے مجھے یونیورسٹی کے پروگرام میں گاتے سنا تھا ۔وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ تم تو بہت اچھا گاتے ہو، تمھیں ہمارے ساتھ گانا چاہیے۔میں  بہت خوش ہوا ، کیونکہ میں انہیں ایک میوزیکل جینئس کے طور پر جانتا تھا۔ اِس طرح میں نے اُن کے میوزک گروپ کے ساتھ گانا شروع کردیا۔ میری  خوش قسمتی  کہ ہے کہ بہترین موسیقاروں  سے ملا۔ روحیل، شہزاد، سلمان، شعیب منصور، نصرت حسین اور رضوان الحق ایسے  لوگ ہیں جن سے میں نے میوزک سیکھا  اور گانا سیکھا۔

روشنی: آپ کے یونیورسٹی کے میوزک گروپ کا نام کیا تھا؟

جنید جمشید: نٹ اینڈ بولٹس

روشنی: میوسیقی کی طرف آنے سے پہلے مستقبل میں کیا بننے کا ارادہ تھا؟

جنید جمشید:میں پاکستان ایئر فورس کا بحیثیت فائٹر پائلٹ حصہ بننا چاہتا تھا۔

روشنی: جب آپ میوسیقی کی طرف آئے تو گھروالوں کے  تاثرات  کیاتھے ؟

جنید جمشید:میرے دادا نے میرے ابا جان سے کہا کہ ہم پٹھان لوگ ہیں، یہ تمھارا لڑکاہماری عزت ملیا میٹ کررہا ہے، ہمارے خاندان میں  توکبھی کسی نے  گانا نہیں گایا ۔ میری خوش قسمتی یہ ہوئی کہ میرے اباروس چلے گئے اور اِس طرح مجھے موقع مل گیا۔

روشنی: آپ کے والد صاحب کیا کام کرتے تھے؟

جنید جمشید: وہ ایئر فورس میں تھے۔

روشنی:سب سے زیادہ پذیرائی کس گانے پر ملی؟

جنید جمشید: دو پل کا، یہ  گانا 1986ء میں منظرِ عام پر آیا۔

روشنی: شہرہ آفاق  ملی نغمہ  دِل  دِل پاکستان کا خیال کیسے آیا؟

جنید جمشید: دل دل پاکستان کا خیال شعیب منصور کا تھا۔ اصل میں ہوا یہ کہ  چالیسویں جشنِ آزادی کے موقع پر پی ٹی وی  ملی ترانوں کا ایک مقابلہ کروا رہا تھا جس میں نوجوان گلوکاروں کو یہ ہدف دیا گیا تھا کہ وہ اپنے میوزک گروپ کے ساتھ ترانہ تیار کریں۔ شعیب صاحب نے لاہور سے رابطہ کیا، ہم لوگ راولپنڈی میں تھے، انھوں نے ہمیں دِل دِل پاکستان   کےبول بتائے اور پھر  اس کی دھن بھی یاد کروائی۔ چند دن ریہرسل کرنے کے بعد اس کی آڈیو ریکارڈ نگ کی گئی۔ آڈیو تیار ہو گئی تو اسلام آباد میں شکرپڑیاں، گالف کلب اور شاہراہ دستور پر اس کی ویڈیو شوٹ کر لی گئی۔

روشنی: دِل دِل پاکستان کے بول کس نے لکھے؟

جنید جمشید: نثار ناسک نے۔

روشنی: یہ نغمہ کب منظرِ عام پر آیا؟

جنید جمشید:1987ء میں۔

روشنی: دِل دِل پاکستان  کو اِس قدر پذیرائی ملی، کیا اسے کوئی اعزاز بھی دِیا گیا؟

جنید جمشید: جی ہاں، بی بی سی کے ایک سروے میں اِسےدنیا کے پُر اثر ترین قومی نغموں  میں شامل کیا گیا ہے،جسے پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ  بھی کہا جاسکتا ہے۔

روشنی: آپ کے میوزک گروپ کا نام کیا تھا؟

جنید جمشید: وائٹل سائنز۔

روشنی: وائٹل سائنز کے اراکین میں کون کون شامل تھا؟

جنید جمشید: روحیل حیات، شہزاد حسن، نصرت حسین ۔

روشنی: آپ کا سب سے  پہلا میوزک البم کون سا تھا اور یہ کب منظرِ عام پر آیا؟

جنید جمشید: وائٹل سائنز 1،  یکم مارچ 1989ء میں منظرِ عام پر آیا ۔

روشنی: آخری میوزک البم کون سا تھا اور یہ کس سن میں آیا؟

جنید جمشید: دِل کی بات، 2001ء میں منظرِ عام پر آیا۔

روشنی: آپ کے کون کون سے میوزک  البمز منظرِ عام پر آئے؟

جنید جمشید: 1989ء میں وائٹل سائنز 1 ، 1991ء میں  وائٹل سائنز  2، 1993ء میں اعتبار ، 1995ء میں ہم تم ، 1999ء میں اُس راہ پر، 2000ء میں دی بیسٹ آف جنید جمشید اور آخری البم 2001ء میں دل کی بات۔

روشنی: آپ کے نعتیہ البمز کے نام کیا ہیں؟

جنید جمشید:جلوہ جاناں، محبوب یزداں، بدر الدجیٰ، یادِ حرم، رحمت اللعالمین، بدیع الزماں، رب زدنی علما اور نورالہدیٰ۔

روشنی: زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی  کیسے آئی  کہ آپ پاپ  سنگر سے مذہبی اسکالربن گئے؟

جنید جمشید:  رسول اللہ صلی  اللہ علیہ  وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ  جب کسی کے  ساتھ بھلائی  کا  ارادہ  فرماتے ہیں  تو اسے  اپنے دین  کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں ، مجھ پر اللہ کا  خصوصی  احسان  ہوا اور میں دین کی  طرف آگیا، اس  سے  پہلے زندگی  میں سکون  نہیں تھا، زندگی  بڑی  بے ترتیب سی  تھی۔

روشنی: آپ کی تبدیلی پر گھروالوں کا رویہ کیسا تھا؟

جنید جمشید:گھر والے بہت کنفیوز ہو گئے تھے۔

روشنی: کیا یہ سچ ہے کہ جو لوگ دین کی طرف جاتے ہیں وہ دنیا سے کٹ جاتے ہیں؟

جنید جمشید:نہیں دنیا سے نہیں کٹتے۔ بس  اُن کی ترجیحات بدل جاتی ہیں ۔ مثلاً جیسے میں چاہوں گا کہ  اگر مجھے  موقع ملے تو میں باربار سوئٹزرلینڈ کی بجائے  مدینہ منورہ حاضرہوں۔ مجھے اس میں  زیادہ لطف، زیادہ  سکون ملے گا۔

روشنی: گلوکار اپنی صبح کا آغاز ریاض  سے کرتے  ہیں، آپ اپنی  صبح کا  آغاز کیسے  کرتے ہیں؟

جنید  جمشید: میری  صبح کا  آغاز بہت  جلدی  ہوتا ہے۔ فجر کی نماز سے تھوڑا سا پہلے اٹھتا  ہوں۔ پھر اللہ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی  مانگتا  ہوں اور آنے  والے دن کے لیے  خیرکی  دعا مانگتا ہوں  کہ  یااللہ! جیسے  آپ  ٹھیک  اور بہتر  سمجھیں میرے  لیے ویسے ہی  ہو۔

روشنی:مکینیکل انجینئرنگ سے ٹیکسٹائل کے شعبہ میں کیسے آنا ہوا؟

جنید جمشید: میں نے دیکھا کہ برینڈز میں شلوار قمیص دوسرے نمبر پر ہے جب کہ یہ ایک بہترین لباس ہے،  اِس میں کوئی برائی نہیں۔مجھے لگا کہ اِس کی مارکیٹ ہونی چاہیے۔

روشنی: آپ نے اپنے برینڈ جے ڈاٹ کا آغاز کب کیا؟

جنید جمشید: میں نے اپنے برینڈ کا آغاز2002ء میں کیا۔

روشنی: یہ جے کے ساتھ  ڈاٹ کا اضافہ کیوں کیا گیا ہے؟

جنید جمشید:جب آپ ایک جملہ مکمل کرتے ہیں تو اُس کے آگے ڈاٹ لگاتے ہیں، ہم بھی  یہی چاہتے  تھے کہ جس نے ایک بار جے ڈاٹ برینڈ کو استعمال کیا پھر وہ کسی اور طرف نہیں جائے  گا ، صرف جے ڈاٹ کو ہی استعمال کرے گا۔

روشنی: جے ڈاٹ قائم کرنے کی وجہ کیا تھی؟

جنید جمشید:اِس کی وجہ یہ تھی کہ میں شلوار قمیص کو جدت کے ساتھ پیش کرنا چاہتا تھا تاکہ پاکستان کی  ثقافت  زندہ رہے۔

روشنی: آپ کو اپنے برینڈ میں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟

جنید جمشید: پرفیومز۔

روشنی: آپ کا پسندیدہ گلوکار کون تھا؟

جنید جمشید: عالمگیر ، محمد علی شہکی، تحسین جاوید۔

روشنی: کھانے میں کیا پسند ہے؟

جنید  جمشید: مجھے کھانے میں حلیم، نہاری اور لوکی پسند ہے۔

روشنی:پسندیدہ لباس؟

جنید جمشید:شلوار قمیص۔

روشنی: آپ کے قریبی دوست کا نام؟

جنید جمشید:سلمان احمد،سہیل خان۔

روشنی: آپ پاکستان سے محبت کا اظہار کس طرح سے کرتے ہیں؟

جنید جمشید: (مسکراتے ہوئے)جیسے میں ہمیشہ کرتا رہا ۔

ایسی زمیں اور آسماں

اِن کے سوا جانا کہاں

بڑھتی رہی، یہ روشنی

چلتا رہے یہ کارواں

دِل دِل پاکستان

روشنی: زندگی کا کوئی یادگار واقعہ؟

جنید جمشید: جب1992ء میں ویمبلے ارینہ (انگلینڈ) میں ہم ایک کنسرٹ کر رہے تھے۔ امیتابھ بچن وہاں مرکزی اداکار تھے، اُن کا قیام ایک سوئٹ(Suits)میں تھا۔ جب ہم اُنھیں ملنے گئے تو وہاں سے واپس آتے ہوئے میرے دِل میں خیال آیا کہ کاش ایک دِن  اسی طرح  میرانام بھی یہاں لکھا جائے اور آٹھ سال بعد اللہ رب العزت نے میری خواہش پوری کر دی۔

روشنی: آپ کو تمغہ ء امتیاز سے کب نوازا گیا؟

جنید جمشید:مجھے2007ءمیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

روشنی:آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

جنید  جمشید: جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اپنی عزیز ترین چیز قربان کردیتا ہے ،اللہ تعالیٰ اُسے کبھی مایوس نہیں کرتا۔آپ بھی اللہ کے اِس وعدے کو ٹیسٹ کریں ۔

شیئر کریں
44