نومبر کا مہینہ کھیلوں کے حوالہ سے اس لحاظ سے اہم ہے کہ ایک طرف تو قطر میں دنیا کے مقبول ترین کھیل فٹ بال کا ورلڈکپ ہو رہا ہوگا تو دوسری طرف آسٹریلیا میں ہمارے خطے کے مقبول ترین کھیل ٹی ٹوینٹی کرکٹ کا ورلڈکپ کھیلا جا رہا ہو گا۔ پیارے بچو، کھیلوں کا مقصد صرف تفریح کا حصول نہیں ہوتا۔ بہت سے اچھے اوصاف ہیں جو جانے انجانے میں ہم کھیلوں سے اپنا لیتے ہیں، محنت کرنا، مقابلے سے نہ گھبرانا، آخری دم تک لڑنا، سارے ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلنا، جیت کو پُر وقار انداز میں منانا، ہار کو کھلے دل سے تسلیم کرنا اور ایسا بہت کچھ۔ اسی سپورٹس مین سپرٹ کا پچھلے دنوں سب سے خوبصورت مظاہرہ لندن میں ٹینس کے عظیم کھلاڑی، سویٹزرلینڈ کے راجر فیڈررکی ریٹائرمنٹ کے موقع پر دیکھنے میں آیا۔ کم و بیش بیس سال تک راجر فیڈررٹینس کے میدانوں میں حکمرانی کی جنگ لڑتے رہے  اور اس دوران اُن کے سب سے بڑے حریف تھے سپین کے رافیل ندال۔ عام مقابلہ جات تو ایک طرف 24دفعہ تو یہ کھلاڑی کسی نہ کسی ٹورنامنٹ کے فائنل میں ٹکرائے ہیں،14 دفعہ فتح ندال کے حصہ میں آئی تو 10دفعہ فیڈرر فاتح ٹھہرے۔ ٹینس کے میدان میں گویا اس طرح کی رقابت تھی کہ ایک کی شکست سے دوسرے کی فتح منسلک تھی۔ اس قدر رقابت کے باوجود جب اپنے آخری میچ کے موقع پر فیڈرر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر رہے تھے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تو تھے ہی، عالم نے ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ ان کا سب سے بڑا حریف اور رقیب ندال بھی اس موقع پر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جو ہاتھ ہمیشہ آپس میں ٹکرایا کرتے تھے انہوں نے حوصلہ دینے کے لیے ایک دوسرے کو تھام لیا۔ ایسا نظارہ حقیقی زندگی میں تو کبھی دیکھا نہ گیا تھا، کسی افسانے کا پلاٹ یا فلم کا سین معلوم ہوتا تھا۔ اس روز سٹیڈیم میں تقریباً 18ہزار شائقین موجود تھے اور لاکھوں دیگر لوگ یہ نظارہ ٹیلی ویژن سکرینوں پر دیکھ رہے تھے، شاید ہی کوئی ایسی آنکھ ہو جو اس موقع پر بھیگ نہ گئی ہو۔ اس روز دیکھنے والوں کے لیے سیکھنے کے بہت سے اسباق تھے:کھیلوں کی رقابت میدانوں تک ہی محدود ہونی چاہیے، کھیل قوموں اور کھلاڑیوں کو ایک دوسرے سے دور نہیں قریب لانے کا سبب بننے چاہییں اور یہ بھی کہ دل اس قدر بڑا ہونا چاہیے کہ اگر کبھی اپنے رقیب، اپنے حریف ،اپنے دشمن کی بھی کسی خوبی کا اعتراف کرنا پڑے تو وسعت قلبی کا مظاہرہ کر سکیں۔

 شکریہ فیڈرر، شکریہ ندال۔

شیئر کریں
88