عمارہ بشیر (مظفرگڑھ)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بوڑھا آدمی روزانہ بادشاہ کی حویلی کے سامنے سے گزرتا اور صدا لگاتا کہ کوئی کسی کا نہیں۔ایک باربادشاہ  نے اس سےپوچھا کہ تم یہ جملہ کیوں دہراتے ہو؟بوڑھے آدمی  نےبادشاہ کے سوال کا کوئی جواب نہ دیاور کہا کوئی کسی کا  نہیں۔ایک دن بادشاہ کا بیٹا بہت بیمار ہوگیا۔اس نے بہترین حکیم علاج کے لیے بلائے ۔ لیکن وہ صحت یاب نہ ہوا۔ بادشاہ بہت پریشان تھا۔وہ رات بھر سو نہیں پاتاتھا۔بس یہی سوچتا رہتا کہ اس کا بیٹا کیسے ٹھیک ہوگا۔ایک دن بادشاہ کو سوچتے سوچتے اس بوڑھے آدمی کا خیال آیا۔اس نے سوچا کہ وہ آدمی بھلا انسان لگتاہے۔اسی سے کل بات کروں گا اوراسی سے اپنے بیٹے کے لیے دعا کراؤں گا۔حسب معمول جیسے ہی وہ بوڑھا  آدمی محل کے پاس سے گزرا تو بادشاہ نے اسے بلابھیجا۔ بوڑھے آدمی نے کہا میں ایک شرط پر تمہارے محل میں آؤں گا کہ  محل میں عمدہ کھانے پکوائیں۔ شرط کے مطابق بادشاہ نے عمدہ کھانا تیار کرایا اور دعا کی درخواست کی ۔دعا کے بعد بوڑھے آدمی نے  جیب سے ایک چھوٹی سی پڑیا نکالی اور اس میں موجود سفوف کو کھانے میں ملا دیااورکہا کہ اس کھانے میں زہرپھیل گیاہے ، جو اسے کھائے گا وہ مرجائے گا اور تمہارا بیٹا ٹھیک ہوجائے گا۔سب لوگ ڈر گئے اور  کھانا کھانے سے انکار کردیا۔حتیٰ کہ بادشاہ نے بھی وہ کھانا نہ کھایا۔پھر بوڑھے آدمی نے وہ کھانا خود  کھایااور کہا کہ میں نے اس کھانے میں کوئی زہر نہیں ملایا تھا۔بادشاہ سے کہا ، یاد ہے تمھیں ؟ تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں یہ جملہ کیوں دہراتا ہوں کہ کوئی کسی کا نہیں۔میں یہ صداغلط نہیں لگاتاتھا کہ کوئی کسی کا نہیں۔آج تم نے اس کا عملی نمونہ دیکھ لیا ہے ۔جب ایک باپ اپنے بیٹے کا نہیں تو اور کون کسی کا ہوگا۔

شیئر کریں
768
13