محمد بلال (بہاول پور)

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک ویران راستے پر ایک اونٹ کھڑا تھا اور اس کی رسی بھی کھلی ہوئی تھی،  اسی راستے سے ایک چوہے کا گزر ہوا۔ اس نے جب دیکھا کہ ایک اونٹ کھڑا ہے اور اس کی رسی بھی بندھی ہوئی نہیں ہے ،نجانے چوہے کو کیا سوجھی۔ چوہا بڑے فخر سے آگے بڑھا اور اونٹ کی رسی اٹھا لی۔ منظر کچھ ایسا تھا کہ چوہا رسی اپنے منہ میں  تھامے آگے آگے اور اونٹ چوہے کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ چوہے کی چال ڈھال میں بڑا تکبر تھا۔ چوہا دل ہی دل بہت خوش تھا کہ میں اتنے بڑے اور لمبے جانور کو اپنے پیچھے گھما رہا ہوں۔اونٹ سمجھ گیا اور دل  ہی دل میں کہنے لگا: اے چھوٹے سے جانور تو کس قدر خوش فہمی کا شکار ہے بس تھوڑی دیر صبر تو کر۔چلتے چلتے  چوہا اور اونٹ ایک ندی کے کنارے پہنچ گئے ۔ ندی دیکھ کر چوہا ڈر گیا اور رک گیا۔ اونٹ رکا اور چوہے سے مخاطب ہوا۔ اے میرے رہنما! خیریت  توہے،  آپ رک کیوں گئے؟ ڈر کیوں گئے ہو ، ہمت سے کام لو۔ خوف زدہ چوہے نے ہلکی سی آواز نکالی اور بولا پانی بہت گہرا ہے اور میں ڈوب جاؤں گا۔ اونٹ نےکہا میں دیکھتا ہوں پانی کتنا گہرا ہے،  پھر وہ ندی کے پانی کے اندر چلا گیا اور چوہے کو بتایا کہ پانی اتنا گہرا بھی تو نہیں، بس گھٹنوں گھٹنوں تک ہی تو ہے، آپ آئیں آگے آگے تاکہ میں آپ کے پیچھے ندی پار کر سکوں۔ یہ سن کر تو چوہے کی جان سی نکل گئی۔ بڑی عاجزی اور انکساری سے بولااے پیارے  اونٹ! پانی آپ کے لیے تو  گھٹنوں تک ہے لیکن میں ڈوب ہی جاؤں گا۔ چوہا سمجھ چکا تھا کہ وہ جس خوش فہمی میں تھا وہ درست نہ تھی ۔ چوہا اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہوا،  اس نے اونٹ سے معافی مانگی۔ پیارے بچو! ہمیں کسی بھی چیز کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔

شیئر کریں
271
3