غبار خاطر: مولانا ابوالکلام آزاد کی یادگار تصنیف

مولانا ابو الکلام آزاد کا نام سنتے ہی ایک ایسی شخصیت کا تصور ابھرتا ہے جو تحریر و تقریر میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ لفظ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ غبار خاطر مولانا کی سب سے آخری کتاب ہے جو ان کی زندگی میں شایع ہوئی۔ 1942 میں جب مولانا آزاد کو حراست میں لے کر مختلف مقامات پر نظر بند کر دیا گیا تو تقریباً تین سال تک آپ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ یہ کتاب اسی زمانے کا ثمر ہے۔ کہنے کو تو یہ کتاب خطوط کا مجموعہ ہے لیکن ان میں مکتوب کی صفت کم ہی پائی جاتی ہے۔ مولانا نے اپنے خیالات کو قرطاس کی زینت بنانے کے لیے عالم خیال میں مولانا حبیب الرحمن خان شروانی کو مخاطب تصور کر لیا ہے اور پھر جو کچھ بھی ان کے خیال میں آتا گیا اسے بے تکلف حوالہ قلم کرتے چلے گئے۔ کتاب میں عربی و فارسی کی مشکل ترکیبیں بہت کم استعمال کی گئی ہیں، نثر ایسی دل نشین ہے کہ تقریباً ہر کسی کے لیے قریب الفہم ہے۔ اور جسے پڑھنے والا ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے کہ جہاں کیف و سرور ہے، جذب و سوز ہے اور فرحت و شگفتگی ہے۔ اردوادب کا شاید ہی کوئی ادیب یا قدر دان ایسا ہو گا کہ جس نے مولانا ابوالکلام آزاد کی شہرہ آفاق کتاب غبارخاطر کا مطالعہ نہ کیا ہو گا، غبار خاطر مولانا آزاد کی ایسی یاد گار ہے کہ اس سے مولانا کی ہمہ جہت زندگی کا سراغ ملتا ہے۔ مولانا آزاد تاریخ، تہذیب اور علوم کا اعتبار و افتخار تھے۔ مولانا آزاد کی  وفات پر پارلیمنٹ میں تعزیتی تقریر کرتے ہوئے جواہر لال نہرو نے یہ بات بھی واضح الفاظ میں کہی تھی کہ اب مولانا آزاد کا بدل ہمیں نصیب نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ مولانا آزاد کے بعد ہندوستان میں عظیم انسان پیدا ہی نہ ہوں گے، یقیناً پیدا ہوں گے لیکن جو عجیب و غریب اور مخصوص عظمت مولانا آزاد کو حاصل تھی وہ اب نہ تو ہندوستان میں کسی کو نصیب ہو گی اور نہ ہندوستان کے باہر کسی کے حصے میں آئے گی۔ بر صغیر کی اس عظیم علمی و ادبی شخصیت کی اس کتاب کو  مالک  رام جیسے  محقق نے مرتب کیا اور یہ کتاب پہلی مرتبہ ساہتیہ اکادمی  کے زیراہتمام شایع  ہوئی۔ مولانا آزاد کی زندگی کے حالات اور ان کے کوائف جاننے کے  لیے یہ کتاب بہترین ماخذ ہے، جسے پڑھ کر آ ج بھی اہل علم و دانش رہنمائی اور توانائی حاصل کرتے ہیں۔

شیئر کریں
149
4