نازیہ  گل  (بہاول نگر)

عاشر ایک دبلا پتلا مگر پرتیلا لڑکا تھا۔ وہ گھر، سکول اور کھیل کے میدان میں ہر جگہ نمایاں رہتا تھا۔ اس کی چستی اور پھرتی کی وجہ  سے  سب اسے سراہتے، اہمیت اور محبت دیتے۔ تمام خوبیوں  کے باوجود عاشر میں ڈینگیں مارنے کی  خامی تھی۔ اس سا بڑا بھائی مبشر پولیو کے باعث معذوری کا شکار تھا، لہذا وہ ہر کام میں عاشر سے پیچھے رہتا۔ سب مبشر کا مذاق اُڑاتے اور معذوری کی وجہ سے اسے کند ذہن اور ڈر پوک سمجھتے۔ کھیل کے میدان میں اس کی پولیو زدہ ٹانگیں دیکھ کر کوئی بھی اسے اپنی ٹیم میں شامل نہ کرتا اور وہ صرف تالیاں بجانے والوں میں بیٹھا سوچتا رہتا کہ میں ان سب کو کیسے یقین دلاؤں کہ میں کند ذہن اور ڈر پوک نہیں ہوں بلکہ مجھ میں بھی بہت کچھ کرنے کی ہمت اور لگن موجود ہے۔ ایک دن اس کے ابو اپنے دفتری کام کی غرض سے دوسرے شہر گئے۔ گھر پر دونوں بھائی اپنی امی کے ساتھ اکیلے تھے۔ اسی رات ان کے گھر ایک چور آ گیا جس نے چاقو دکھا کر ان کی امی سے الماری کی چابیاں مانگ لیں۔ عاشر ڈر کے مارے اپنی امی کے پیچھے چھپ گیا اور امی نے الماری کی چابیاں چور کے سامنے  نیچے زمین پر پھینک دیں۔ چور جیسے ہی چابیاں اٹھانے کے لیے زمین پر جھکا تو مبشر نے پیچھے سے اپنی لاٹھی اس کے سر پر ماری۔ اچانک  حملے سے چاقو چور کے ہاتھ سے گر گیا۔ عاشر، مبشر اور ان کی امی باہر کی  طرف بھاگے اور دروازے کو باہر سے بند کر کے ہیلپ لائن کے  ذریعے پولیس کو طلب کر لیا۔ چنانچہ کچھ ہی دیر میں پولیس نے چور کو پکڑ لیا۔ علاقے کے لوگوں نے مبشر کی بہت تعریف بھی کی اور پولیس انسپکٹر  نے اسے بہادری کا سرٹیفکیٹ بھی دیا۔

شیئر کریں
192