محمد حامد (وہاڑی)

سرمد صبح سویرے سو کر اٹھا اور اس نے نہا دھو کر ناشتہ کیا، سکول کی یونیفارم پہنی اور سائیکل پر سوار گھر سے  نکل کھڑا ہوا۔ سرمد کے امتحان شروع  ہو رہے تھے۔ آج پہلا پرچہ تھا جس کے لیے اسے مقررہ وقت سے پہلے سکول میں پہنچنا تھا تاکہ پرچہ شروع ہونے سے قبل وہ کمرہ امتحان میں رول نمبر کی تفصیل اور اپنی جگہ کا تعین کرسکے۔ وہ معمول کی نسبت آج ذرا تیز سائیکل چلا رہا تھا۔ ابھی سڑکوں پر ٹریفک کا ازدحام نہ تھا۔ اکا دکا گاڑیاں اور موٹر سائیکل وغیرہ اور پیدل لوگ دکھائی دیتے تھے۔ کچھ فاصلے پر اسے ایک طرف سے تیز رفتارکار آتی ہوئی نظرآئی۔ اسے اندازہ تھا کہ سڑک پار کرنے سے پہلے وہ کار ادھر پہنچ سکتی ہے اس لیے وہ سڑک کے کنارے پر رک کر کار کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ کارکا ڈرائیور اتنی تیزی میں تھا کہ اس نے ٹریفک سگنل کی سرخ روشنی سبز روشنی میں تبدیل ہونے کی بھی پرواہ نہ کی اور اسی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے چوراہا پار کرنے کی کوشش کی۔ اتنے میں دوسری جانب سے ایک اخبار فروش اپنی پرانی سی موٹر سائیکل پر وہاں پہنچ گیا۔ اسے بھی شاید  اخبارات کو اپنی منزل مقصود تک جلد از جلد پہنچانے میں جلدی تھی اس لیے ٹریفک سگنل کی سرخ بتی سبز میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ کر اس نے اپنی موٹر سائیکل چلا دی۔ سرمد کو یقین ہوگیا کہ اس خطرناک صورتحال کا نتیجہ بہت بھیانک نکلنے والا ہے۔ اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ دیے اور آنکھیں موند لیں۔ کار کا اگلا حصہ موٹرسائیکل کے پچھلے حصہ سے ٹکرایا۔ موٹر سائیکل سوار سڑک پر گر گیا۔ کار ڈرائیور نے جب دیکھا کہ گرنے والا شخص شدید زخمی ہو گیا ہے تو اس نے وہاں رک کر اس کی مدد کرنے کی بجائے اپنی کار کو دوسری سمت موڑا اور تیز رفتاری سے رفوچکر ہو گیا۔ اخبار فروش شخص شدید زخمی حالت میں تڑپ رہا تھا۔ سرمد کو سکول پہنچنے کی جلدی تھی کیونکہ دیر سے پہنچنے پر سکول کا گیٹ بند کر دیا جاتا تھا۔ دیر سے  آنے والے بچوں کو باہر کھڑا کر دیا جاتا تھا اور جب تک انہیں ہیڈماسٹر صاحب اندر آنے کی اجازت نہ دیتے انہیں گیٹ کے باہر انتظار کرنا پڑتا تھا۔ دوسری طرف زخمی شخص کی جان کو خطرہ تھا۔ اگر اسے فوری طور پر ہسپتال نہ پہنچایا جاتا تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ سرمد نے سوچا کہ پرچہ دوبارہ دینے کا موقع مل سکتا ہے لیکن اس شخص کی جان چلی گئی تو اس کے والدین اور بیوی بچوں کی زندگی کا سہارا ختم  ہوجائے گا۔ اگر اس نے انسانی ہمدردی کا وعدہ پورا نہ کیا اور اس کی مدد نہ کی تو شاید وہ اپنے آپ کو پوری زندگی معاف نہ کر سکے ۔وہ جلدی سے ٹیلی فون کیفےپر گیااور ایمرجنسی نمبر ملایا۔ اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور اس کے زخموں پر باندھ دیا۔ اسےسکول میں ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی گئی تھی۔ اتنے میں ایمبولینس آ گئی۔ زخمی شخص کو فوراً اس میں منتقل کیا گیا۔ موٹرسائیکل کو ٹکر مارنے والی کار کی نمبر پلیٹ گر گئی تھی، سرمد نے اسے اٹھا کر اپنے بیگ میں رکھ لیا۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر خون  کا انتظام کرنے کے لیے کہا، اس نے اپنا خون ٹیسٹ  کرایا تو اس کا گروپ زخمی شخص کے خون سے میچ کر گیا۔ فوری طور پر اس کا خون مریض کو منتقل کیاگیا۔ جب زخمی شخص کی  حالت خطرے سے باہر ہو گئی تو اس نے اپنی سائیکل کا رخ سکول کی طرف موڑدیا۔ وہاں جا کر اس نے دیکھا کہ سکول کا گیٹ بند ہوچکا ہے۔ اس نے گیٹ کیپر کو سارا ماجرا سنایا تو وہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس اجازت لینے کے لیے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہیڈ ماسٹر صاحب خود تشریف لائے اور سرمد سے کہنے لگے کہ تم تو آج تک کبھی دیر سے نہیں پہنچے، آخر کیا وجہ ہوئی کہ آج  دیر کر دی۔ ہیڈماسٹر صاحب  نے تمام واقعہ سنا تو انہوں نے  فوراً سرمد کو کمرہ امتحان میں جانے کی اجازت  دے  دی۔  اس نے اپنا پرچہ خوشی سے دیا اور سکول سے باہر جب وہ نکلا  تو اس نے دیکھا کہ اس کے ماں باپ اور زخمی شخص اس سے ملنے آئے ہوئے تھے۔

شیئر کریں
412
3