شہاب نامہ: اردو کے غیر افسانوی ادب کا شاہ کار نثری پارہ

شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت سوانح عمری ہے۔قدرت اللہ شہاب کا شمار ان عظیم افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ انھوں نے ادب اور بیوروکریسی کی شاہراہوں پر ایسے تا دیر قائم رہنے والے نقوش چھوڑے ہیں جو تازہ واردان کے لیے ہر زمانے میں چراغِ راہ کا کام دیں گے۔انھوں نے اپنے طرز عمل سے نہ صرف نئی نسل کو متاثر کیا بلکہ اپنے عہد کے روایتی اور فرسودہ نظام کو بدلنے اور اسے ایک نئی اور پائیدار سمت عطا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ان کی شخصیت عجز و انکسار ی،صبر واستقلال،جرأت مندی،فرض شناسی،حب الوطنی،ادب نوازی،دیانت داری،انسان دوستی،سادگی اور تصوّف کا ایک ایسا خوبصورت مرقع تھی جس کے ہر رنگ میں سو رنگ پنہاں تھے۔ وہ تمام عمر بیو رو کریٹ بن کر نہیں ایک عام انسان بن کر رہے۔یہی ان کا کمال ہے اور اسی میں ان کی شخصیت کا رازبھی پوشیدہ ہے۔ انھوں نے بیوروکریسی کی دنیا میں ایک ایسی روایت قائم کی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

قدرت اللہ شہاب یکم جنوری 1920 میں گلگت میں پیدا ہوئے۔انھوں نے پرنس آف ویلیز کالج جموں سے 1937ء میں بی ایس سی کیا۔اس کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج،لاہور سے انگریزی میں ایم اے کیا۔1940ء میں آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا۔ان کو ریاست جموں و کشمیر کا پہلامسلم آئی سی ایس افسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انھوں نے تقسیم ہند سے قبل ہندستان کے مختلف اضلاع میں آئی  سی ایس افسر کے طور پر اپنے سرکاری فرائض انجام دیے۔1947ءکے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان چلے گئے۔پاکستان میں وہ سیکرٹری جنرل آزاد کشمیر،ڈپٹی سیکرٹری وزارت آزاد کشمیر، ڈپٹی کمشنر ضلع جھنگ،ڈائریکٹر انڈسٹریزحکومت پنجاب،سیکرٹری گورنر جنرل آف پاکستان ملک غلام محمد،سیکرٹری گورنر جنرل آف پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا،سیکرٹری صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان،سیکرٹری اطلاعات حکومت پاکستان،سیکرٹری وزارت تعلیم حکومت پاکستان،سیکرٹری جنرل پاکستان رائٹرز گلڈجیسے اہم عہدوں پر فائز رہے۔اس کے علاوہ انھوں نے ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور یونیسکو ایگزیکٹو بورڈ کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔ایک بھر پور اور مصروف زندگی گزارنے کے بعد اس مر د حق شناس نے24جولائی 1986ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔

اردو ادب کی تاریخ میں قدرت اللہ شہاب کا اہم مقام ہے۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ان کا پہلا افسانہ 1938ء میں چندراوتی کے نام سے شائع ہوا۔یہ وہ زمانہ تھا جب اردو افسانے کے افق پر سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر، مرزا ادیب اور ممتاز مفتی جیسے افسانہ نگار ستاروں کی مانند روشن تھے۔قدرت اللہ شہاب کی ادبی زندگی اگرچہ ایک طویل عرصے پر محیط ہے لیکن سرکاری فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہنے کی وجہ سے انھوں نے اپنے معاصرین کے مقابلے میں بہت کم لکھا مگر جو کچھ بھی لکھا وہ فکری و فنی اور موضوعاتی اعتبار سے بلند معیار کاحامل ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے نثری سرمائے میں بھی گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا فسادات کے موضوع پر مبنی ایک طویل اور شاہ کار ناولٹ یاخدا 1948ء میں شائع ہوا۔اس کے بعد ان کے تین افسانوی مجموعے نفسانے،ماں جی اور سرخ فیتہ شائع ہوئے۔یہ تینوں افسانوی مجموعے ان کی زندگی میں کئی بار شائع ہوئے لیکن جو تصنیف ان کی شہرت وعظمت کا باعث بنی اور جس نے انھیں جاوداں کر دیا وہ ان کی وفات کے ایک سال بعد 1987ء میں سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور (پاکستان)کی جانب سے شہاب نامہ کے روپ میں شائع ہوئی۔قدرت اللہ شہاب کی وفات سے پہلے شہاب نامہ کے ابتدائی چند ابواب سیارہ ڈائجسٹ،اردو ڈائجسٹ، معاصر، دستاویز، نیا دور اور تخلیقی ادب جیسے مختلف ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے تھے۔1987میں کتابی صورت میں شائع ہونے کے بعد اس کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ ایک ہی سال میں اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ 1987ء سے لے کر اب تک اس آپ بیتی کے بیسیوں ایڈیشن بر صغیر ہند و پاک کے مختلف اشاعتی اداروں سے شائع ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

شہاب نامہ ایک اہم اور دلچسپ آپ بیتی ہے۔اردو خودنوشت سوانح عمری کی تاریخ میں اس کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔اس کی اہمیت مختلف حوالوں سے ہے۔یہ نہ صرف اردو کے غیر افسانوی ادب کا شاہ کار نثری پارہ ہے بلکہ اپنے عہد کاایک اہم سیاسی وتاریخی مرقع بھی ہے۔یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں بیسویں صدی کے تمام اہم سیاسی و تاریخی انقلابات کو الفاظ کے کیمرے میں قید کیا گیاہے۔یہ مصنف کی زندگی کے شب وروز کے حالات وواقعات کی ایک دلچسپ کہانی بھی ہے اور ان کے عہد کی ایک تلخ داستان بھی۔اس کے اوراق معلومات افزا بھی ہیں اور درد آمیز بھی۔اس کے صفحات تقسیم ہند کے دوران کے ان وحشت ناک اور خون ریز فسادات کی تصویر کشی سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے روئے زمین پر انسانیت کو ہمیشہ کے لیے شرمسار کر کے چھوڑا۔غرض اس کتاب میں مختلف موضوعات کو احاطہ تحریر میں لیا گیا ہے۔لیکن قدرت اللہ شہاب نے ان تمام موضوعات کو آپ بیتی کی ہئیت میں اپنی ذات کے وسیلے سے بیان کیا ہے اوریہی اس خودنوشت سوانح عمری کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

شہاب نامہ کا آغاز اقبال جرم سے ہوتا ہے۔ یہ کتاب کا ابتدائیہ ہے جس میں قدرت اللہ شہاب نے اپنی آپ بیتی کے حوالے سے چند اہم معلومات بہم پہنچائی ہیں اور اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ شہاب نامہ کا بنیادی مقصد بت شکنی یا بت تراشی کے بجائے ان واقعات، مشاہدات اورتجربات کی روئیداد کو بے کم و کاست بیان کرنا ہے جنہوں نے انھیں متاثر کیا۔ قدرت اللہ شہاب اپنے اس دعویٰ پر پورا ترتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پوری خودنوشت میں کہیں بھی اس بات کا شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی بت شکنی یا بت تراشی کر رہے ہیں ۔ان کی تحریر شخصیت پرستی کے اثرات سے پاک ہے۔ انھوں نے حالات و واقعات کو ان کے صحیح تناظر میں سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

قدرت اللہ شہاب نے اپنی خودنوشت سوانح عمری کا باقاعدہ آغاز اپنے بچپن کی حسین یادوں سے کیا ہے۔انھوں نے آپ بیتی کے ابتدائی ابواب میں اپنے بچپن کی زندگی کو الفاظ کے خوبصورت سانچے میں ڈھال کراس طرح بیان کیا ہے کہ ان کا بچپن خوبصورت بھی معلوم ہوتا ہے اور عام بچوں سے مختلف بھی۔اس میں ایسے نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں جو ان کی آنے والی زندگی کا پتہ دیتے ہیں ۔اس میں سطحیت اور قناعت پسندی کے بجائے ارتقا کے عنا صر نمایاں ہیں اور ایک اونچی پرواز بھرنے کا جذبہ بھی موجزن ہے۔ یہ بچپن شرارتوں ،شوخیوں ،بے باکیوں ،نادانیوں اور رومان بھرے جذبات سے بھی عبارت ہے۔

شہاب نامہ  کے ابتدائی ابواب میں دو کہانیاں ایک ساتھ آگے بڑھتی ہیں ۔ایک کا تعلق مصنف کی نجی زندگی سے ہے اور دوسری اس وقت کے جموں وکشمیر کے سیاسی منظرنامے پر مشتمل ہے۔یہ دونوں کہانیاں دلچسپ بھی ہیں اور معلومات افزا بھی۔پہلی کہانی میں مصنف نے اپنے بچپن کے احوال وکوائف اورتعلیمی زندگی کے نشیب وفراز کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی پس منظر کو بھی دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے نیز بچپن کی ایک ناکام محبت کی روداد کو بھی اپنی تمام تر کیفیات کے ساتھ صفحہ قرطاس پر اتارا ہے۔ اس کہانی میں مصنف نے اپنے والدمحمد عبداللہ کابھی ایک خوبصورت اور جاذب نظر خاکہ کھینچا ہے۔اس خاکہ کا ایک ایک لفظ اطاعت گذاری اور سعادت مندی کے جذبے سے معمور ہے۔دوسری کہانی میں اس وقت کے جموں وکشمیر کے سیاسی منظرنامے اوراس وقت کی ریاست کی صورت حال کا عالمانہ تجزیہ کیا گیا ہے۔چودھری غلام عباس اور شیخ محمد عبداللہ کے دلچسپ خاکے کھینچے گئے ہیں ۔ڈوگرہ مہاراجاؤں کی ناخواندگی،شدت پسندی،بد اخلاقی اور ریاست کے مسلمانوں کے ساتھ ان کے متعصبانہ رویّے کی سچی عکاسی کی گئی ہے۔اس کے علاوہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی پس ماندگی اور بے سر وسامانی کے ساتھ ساتھ ان کی سادگی،افلاس،ناداری اور مظلومیت کی داستان کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

جموں وکشمیر کا سیاسی و سماجی منظر نامہ پیش کرنے کے بعد قدرت اللہ شہاب نےچندراوتی کے عنوان کے تحت گورنمنٹ ڈگری کالج لاہور کا ذکر کیا ہے جہاں سے انھوں نے ایم اے کیا تھا۔انھوں نے کالج کے زمانے کی اپنی دو سالہ زندگی کے بارے میں جو معلومات بہم پہنچائی ہیں اس کی مدد سے اس زمانے کے گورنمنٹ ڈگری کالج لاہور کا ایک دھندلا سا نقش آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے لیکن قدرت اللہ شہاب کے دل کے معاملات اپنی تمام تر کیفیات کے ساتھ الفاظ کے خوبصورت قالب میں اس طرح ڈھل گئے ہیں کہ قاری کا ذہن و دل اس سے لطف و انبساط حاصل کرتا ہے لیکن کہانی کا المیہ پن اس پر دکھ کی ایسی کیفیت بھی طاری کردیتا ہے کہ اسے محبت کے اس انجام پر رونا آتا ہے۔

قدرت اللہ شہاب نے گورنمنٹ ڈگری کالج، لاہور سے ایم اے کر نے کے بعد 1940ء میں آئی سی ایس کا امتحان پاس کرکے جموں و کشمیر کا پہلا مسلم آئی سی ایس افسر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔انھوں نے اس کا میابی کا ذ کراپنی آپ بیتی کے ایک مخصوص باب میں  آئی سی ایس میں داخلہ  کے عنوان کے تحت بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنی ملازمت کا باقاعدہ آغاز بھاگلپور،بہار کے اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے کیا۔انھوں نے بھا گلپور میں اپنے قیام کے دوران کی روداد کو بھاگلپور اور ہندو مسلم فسادات کے عنوان کے تحت بڑے دلچسپ انداز میں تحریر کیا ہے۔یہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور ان کی خودنوشت سوانح عمری میں بھی ایک نیا موڑ آتا ہے۔یہی وہ مقام بھی ہے جہاں سے شہاب نامہ کی فضائوں پر سیاسی اور تاریخی عنصر کا گہرا رنگ بھی نمایاں ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

بھاگلپور اور ہندو مسلم فسادات ،ایس ڈی او،نندی گرام اور لارڈویول،بملا کماری کی بے چین روح،پاکستان کا مطلب کیااورسادگی مسلم کی دیکھ شہاب نامہ کے ایسے ابواب ہیں جن میں قدرت اللہ شہاب نے اپنی زندگی کے اسی دور کا تذکرہ کیاہے۔انھوں نے ان ابواب میں اس دور کے اہم حالات و واقعات کے بارے میں بھی دلچسپ معلومات بہم پہنچائی ہیں ۔ آپ بیتی کایہ حصہ ان کی شخصیت سے دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ تاریخ کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بھی ایک مستند حوالہ کی حیثیت رکھتاہے۔کیوں کہ ان ابواب میں قدرت اللہ شہاب نے 1947ء سے قبل کے ہندوستان کی سیاسی و سماجی اور معاشرتی صورت حال کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔انھوں نے اس ضمن میں قحط بنگال کی تباہ کاریوں ،ہندستان کی تحریک آزادی،کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین سیاسی رسہ کشی، ہندو مسلم فسادات، تحریک پاکستان،محمد علی جناح کے سیاسی نظریات،لیاقت علی خاں کے بجٹ،مہاتما گاندھی،پنڈت جواہر لال نہرواورلارڈ مائونٹ بیٹن کے مابین تعلقات اور تقسیم ہند کے عمل پر اس کے اثرات کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ابتدائی مشکلات کا منظر نامہ بھی پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ انگریزوں او ر ہندوؤں کے مابین تعلقات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔مسلمانوں کی بے بسی اور بے سروسامانی کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے تقسیم ہند کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔انھوں نے حالات و واقعات کا بڑے عالمانہ اور دانش ورانہ انداز میں تجزیہ بھی کیا ہے۔

قدرت اللہ شہاب پاکستان کے ایوانِ صدر میں سربراہانِ مملکت کے سیکرٹری کی حیثیت سے رہے۔اس دوران ان کو گورنر جنرل ملک غلام محمد،میجر جنرل اسکندر مرزااورصدر جنرل ایوب خان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایوانِ صدر کے اندرونی ماحول کو بھی قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی خودنوشت سوانح عمری کے کئی ابواب کو اسی دور کے حالات و واقعات سے مزین کیا ہے۔ان ابواب میں گورنر جنرل ملک غلام محمد،سکندر مرزا کا عروج و زوال،جنرل ایوب خان کی اٹھان،صدر ایوب:اصلاحات اور بیوروکریسی،صدر ایوب اور ادیب ،صدر ایوب اور صحافت،نیشنل پریس ٹرسٹ،ایوب خان اور معاشیات ،صدرایوب اور سیاست دان،صدر ایوب اور طلبا،صدر ایوب اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اورصدر ایوب کا زوال شامل ہیں ۔ان ابواب کے مطالعے سے گورنر جنرل ملک غلام محمد،میجر جنرل سکندر مرزااور صدر جنرل محمد ایوب خان کے بارے میں بہت مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔قدرت اللہ شہاب نے پاکستان کے ان تینوں سربراہوں کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے اور ان کی شخصیتوں کا تجزیہ عالمانہ اور مدبّرانہ انداز میں اس طرح کیا ہے کہ ان کا اصل چہرہ سامنے آجاتاہے۔اس حصے کی اہمیت بہت زیادہ اس لیے بھی ہے کیوں کہ اس کی مدد سے پاکستانی سیاست کے حوالے سے ایسی تلخ باتیں سامنے آتی ہیں جو اس کتاب کے شائع ہونے سے پہلے صیغہ راز میں تھیں ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو شہاب نامہ ایک ایسی کتاب ہے جو قاری کو پاکستان کے ایوانِ اعلا کے اندر کے ماحو ل سے متعارف کراتی ہے اور اس کے سامنے ایسے راز کھول کر رکھ دیتی ہے جن تک اس کی رسائی ممکن نہ تھی۔یہ پاکستانی سیاست کے درپردہ رازوں کی سچی عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ اس عہد میں پاکستان کے ایوانِ حکومت میں ہونے والی ان خفیہ سیاسی ریشہ دوانیوں کی بھی چشم دید داستان ہے جنہوں نے سیاسی،سماجی،معا شی اور دفاعی معاملات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جغرافیہ پر بھی اپنے منفی اثرات مرتب کیے۔

شیئر کریں
142
2