صوفی غلام مصطفیٰ تبسم

ایک تھی ننھی منی چڑیا۔  سار ادن اِدھر اُدھر گھومتی رہتی۔ ہوا میں سارا سارا دن اڑتے رہنے سے اُس کی دُم کے پَر بھی جھڑچکے تھے اور سر پر تو کوئی بال ہی نہ رہا تھا۔ بڑی بد شکل ہو گئی تھی۔ کوئی اُسے منہ نہ لگاتا تھا۔ لیکن وہ بہت شریر اور چغل خور تھی۔ کچھ بھی ہو وہ شرارتوں سے باز نہ آتی تھی۔ حیوان اور پرندے اُس سے بہت تنگ آئے ہوئے تھے۔ اس کا کام یہ تھا کہ صبح گھر سے نکلتی اور دن بھر جو باتیں اِدھر اُدھر سے سنتی ان پر جھوٹ موٹ  کے حاشیے چڑھا کر اِس کی بات اُسے اور اُس کی بات اِسے سناتی  اور ان کو آپس میں لڑاتی رہتی۔ چغلی کھانا اُس کا وتیرہ ہو گیا تھا۔

  ایک دن ایک درخت پر بیٹھی ہوئی گانا گا رہی تھی، اور اپنی ہی دُھن میں مزے لے لے کر چوں چوں کر رہی تھی اتنے میں اس کی نظر ایک خرگوش پر پڑی جو آہستہ آہستہ اُسی درخت کی طرف چلا آرہا تھا جس پر چڑیا بیٹھی تھی۔وہ ایک دم خاموش ہو گئی۔ اتنے میں خرگوش درخت کے نیچے آکر رُک گیا اور آرام سے بیٹھ گیا۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ پھر اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا: میرا جی چاہتا ہے آج بھیڑئیے میاں کو چھیڑوں اور کوئی ایسی چال چلوں کہ بھیڑیا غصّے سے آگ بگولا ہو جائے اور اپنا سر پیٹ کر رہ جائے۔ یہ کہہ کر وہ بے اختیار ہنس پڑا اور تالی بجانے لگا۔ یہ دیکھ کر چڑیا نے آواز دی: خرگوش بھیّا! میں نے تمھاری ساری باتیں سن لی ہیں۔ یہ بات نہیں ہوگی۔ میں ابھی جارہی ہوں۔ اور جا کر سارا ماجرا بھیڑئیے میاں کو سناتی ہوں۔

خرگوش سُن کر ڈر گیا۔ دل میں سوچنے لگا، یہ آفت کی پُڑیا اگر بھیڑئیے کے پاس پہنچ گئی اور ساری بات اُسے سُنا دی تو بھیڑیا مجھے جان سے مار دے گا۔

کچھ دیر وہ اسی طرح سہما ہوا وہاں کھڑا رہا۔ آخر اُسے ایک بات سُوجھی اور وہ خوشی سے ناچنے لگا۔ اُدھر چغل خور چڑیا اڑ کر بھیڑئیے کے پاس پہنچی اور جاتے ہی بولی: آقا جان! سلام عرض کرتی ہوں۔ بھیڑیے نے سلام کا جواب دیا اورپھر پوچھا: سناؤ ننھی چڑیا! کیا خبر لائی ہو؟   چڑیا نے کہا: حضور!  آج خرگوش آپ کو بہت تنگ کرے گا۔ کہتا تھا کہ ایسی چال چلوں گا کہ بس تو بہ! آپ ذرا ہوشیار رہیں اس سے۔  بھیڑیے  نے کہا: کوئی بات نہیں ، دیکھا جائے گا۔ تم فکر نہ کرو۔ چڑیا اُڑ گئی۔

اب خرگوش میاں بھی دبے پاؤں بھیڑیے کے پاس آئے اور ذرا دُور فاصلے پہ کھڑے ہو کر سلام کیا۔ بھیڑیے نے کہا : کیابات ہے میاں خرگوش! تم دُور کیوں کھڑے ہو، میرے قریب کیوں نہیں آتے؟ خرگوش نے عاجزی سے جواب دیا: جناب! آپ سے ڈر لگتا ہے۔ سناہے آپ چاہتے ہیں  کہ مجھے مار کر میرا خون پی لیں اور میرے گھر پر قبضہ کرلیں۔ بھیڑیےنے کہا: یہ تم سے کس نے کہا ہے؟خرگوش نے  کہا: حضور!  چڑیا نے۔ بھیڑیے نے کہا: اچھا!  کوئی بات نہیں، ابھی پوچھ لیتا ہوں اس سے۔ یہ کہہ کر اس نے جنگل کی  راہ لی۔

دُوسرے دن چڑیا اپنی عادت کے مطابق بھیڑیےکے پاس آئی، اورکہا: حضور! میں آپ کے لیے ایک بالکل تازہ خبر لے کر آئی ہوں۔ اجازت ہو تو عرض کروں۔ بھیڑیے نے کہا: ضرورکہو، ضرور! ہاں ذرا میرے قریب آجاؤ۔ رات سے میرے کان کچھ  خراب ہوگئے ہیں۔ میں اُونچا سننے لگا ہوں۔ بہتر ہے کہ میرے سر پر آبیٹھو۔ چڑیا بھیڑیے کے سر پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگی۔

بھیڑیے نے کہا: میری  ننھی چڑیا! افسوس ہے کہ مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ اگر تمہیں  تکلیف  نہ ہوتو میری زبان پر آبیٹھو اور باتیں کرو، تاکہ آسانی سے سُن سکوں۔ یہ کہہ کر بھیڑیے نے اپنی زبان باہر نکالی اور چڑیا لپک کر اس کی زبان پر آبیٹھی۔اس کا زبان پر بیٹھنا تھا  کہ بھیڑیا اسے چٹ کر گیا۔ یہ ہوتا ہے چغل خوری کا برا نتیجہ۔

شیئر کریں
88
2