احمد ندیم قاسمی

ننھا عزیز سر پر ایک غلیظ سا بستہ رکھے تھکے تھکے قدم اُٹھائے ہولے ہولے گنگناتا جا رہا تھا۔

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

اس نے اچانک قدم روک لیے اور زمین کو بڑی سنجیدگی سے دیکھنے لگا، پھر بستے کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر اُوپر دیکھا۔۔۔ ہلکا نیلا آسمان جس پر دو چار چیلیں مُنڈلا رہی تھیں۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔  مگر مسکراہٹ پر حیرت نے فتح پالی۔

کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

وہ اپنی انگلی دانتوں میں دبائے کچھ سوچتا ہوا قدم اُٹھانے لگا۔ ایک دو بار مویشیوں کے گلّوں نے اُسے تکلیف دی اور وہ ایک طرف دیوار سے چمٹ کر ہر بیل کو خوف سے گھور گھور کر دیکھنے لگا۔ اچانک اس کی نگاہیں ایک جوان بیل کے مرمر ایسے سفید سموں پر جم گئیں اور پھر اس نے اپنے میلے کچیلے پاؤں کی طرف دیکھا جو پرانی چپل میں مُردہ رُوحوں کی طرح پڑے تھے۔۔۔  میل سے بھرے ہوئے بے جان اور بد صورت۔۔۔  اس کے ذرا سے دماغ نے ایک بہت بڑی تجویز سوچی۔۔۔  اگر مجھے اللہ میاں کہیں ملیں تو میں پہلے اُنھیں سلام کرکے (کیونکہ ماسٹر جی نے بڑوں کو سلام کرنے کی زبردست تلقین کر رکھی تھی) یہ عرض کروں گا: اچھے اللہ! انسان کے پاؤں بڑے خراب ہیں۔ انسان چلتا پھرتا ہے۔ بھاگتا دوڑتا ہے، تو اس کے پاؤں میں کنکر کانٹے چبھ جاتے ہیں۔ میل جم جاتا ہے، کئی بار زخمی ہو جاتے ہیں پاؤں۔۔۔ اگر یہ بیلوں کے سُموں کی طرح ہڈی کے بنے ہوئے ہوں، تو کیا حرج ہے؟

وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے سے اُسے گاؤں کا سب سے بڑا رئیس مشکی گھوڑے پر سوار نظر آیا۔ اس کی گرگابی سورج کی شعاعوں میں شیشے کی طرح چمک رہی تھی اور جب وہ عزیز کے پاس سے گزرا تو آپ سے آپ عزیز کی نگاہیں اس کے پاؤں پر جم گئیں جو دودھ کی طرح سفید تھے۔ اُس نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے خدا سے اپنی غلط دُعا واپس مانگ رہا ہے۔ اتنے اچھے۔۔۔ ایسے صاف پاؤں۔۔۔ سُم کیا ہے ان کے مقابلے میں۔۔۔ ! مگر میں بھی تو ایک انسان کا بیٹا ہوں۔۔۔  میرے پاؤں اتنے غلیظ کیوں ہیں؟ یہ اُلٹی بات اُس کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔

وہ اس سوچ میں غرق آہستہ آہستہ جا رہا تھاکہ اچانک اُسے رستے میں اُبھرے ہوئے ایک پتھر سے ٹھوکر لگی۔ بستہ اُچھل کر دُور کنکروں پر جا گرا اور اس کے دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے خون جاری ہو گیا۔ اُسے پھر ایک ثانیے کے لیے بیل کے سُموں کے فوائد کا خیال آیا، مگر درد کی شدت نے اس کے دماغ میں ہلچل مچا دی۔ اس نے چیخ کر رونا چاہا، مگر سامنے اسکول کے برآمدے میں ماسٹر جی کھڑے ہاتھوں میں کھرا مٹی کا ایک ٹکڑا اُچھال رہے تھے۔ اس کی چیخ حلق تک آئی اور وہ کڑوی دوا کی طرح آنکھیں بھینچ کر پی گیا۔ زخم پر مٹی ڈال کر اُٹھا۔ بستے کو چھوا، تو اس کا دل دھک سے اس کی ایڑیوں میں جا گرا۔ اس کی سلیٹ ٹوٹ گئی تھی۔ اب وہ ضبط نہ کر سکا اور پورے زور سے رونے لگا۔

 ماسٹر جی بڑے رحم دل تھے۔ دوڑے دوڑے آئے، ننھے کو تسلی دیتے ہوئے کہا: بچے!  اُٹھ…! میں آج تجھے کچھ نہ کہوں گا۔ آج کاغذ پر سوال نکال لینا، کل سلیٹ خرید لانا اور ہاں! اَب لوہے کی سلیٹ خریدنا،جیسے اصغر کی ہے۔

اصغر کی…! عزیز نے سوچا۔ مگر اصغر کا باپ تو پٹواریوں کا بڑا افسر ہے اور میرا باپ پٹواری اور جنگل کے داروغے کی گائے بکریوں کے لیے چارہ کاٹنے والا۔  لوہے کی سلیٹ پر تو بڑے پیسے خرچ آئیں گے اور کل رات ہم لوگ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بھینسے کا گوشت نہ خرید سکے! اب کیا ہوگا؟

اس نے بستہ سر پر اُٹھا لیا۔ غیر ارادی طور پر اس کی انگلیاں بستے کے اندر کھڑکھڑاتے ہوئے سلیٹ کے ٹکروں کو ٹٹولنے لگیں اور جب وہ لڑکوں کے جمگھٹ میں داخل ہوا،جو اس کی چیخیں سن کر اسکول کے احاطے سے باہر اکٹھے ہو گئے تھے تو اس کا چہرہ فخر سے لال ہو گیا۔ ماسٹر جی اس کی انگلیاں تھامے ہوئے تھے اور لڑکے بھی اس کی طرف ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے،کیونکہ ماسٹر جی نے اس سے ہمدردی کی تھی۔

چٹائی پر بیٹھ کر اس نے بستے سے سلیٹ کے ٹکڑے یوں نکالے جیسے اپنے سینے سے دل کے ٹکڑے نکال رہا ہے۔ ایک بڑا ٹکڑا اپنے پاس رکھ لیا او رباقی دُور ایک

جھاڑی میں پھینک آیا۔ ماسٹر جی سوال لکھوانے لگے، تو پہلے اس نے اپنی سلیٹ کی طرف دیکھا، جس کے بے شمار کنارے چاقو کی دھار کی طرح تیز تھے، پھر پیچھے مُڑ کر قطار کے آخری سرے پر اصغرکی سلیٹ کی طرف دیکھا۔ نئی سلیٹ جس کے ساتھ ایک مٹھی بھر اسفنج لٹک رہا تھا۔ اس نے نفرت سے اپنی ننھی سی ناک چڑھا کر اپنی سلیٹ پر زور سے تھوکا اور ہتھیلی سے مَل کر سوال حل کرنے لگا۔

چھٹی کے بعد وہ گھر واپس آرہا تھاکہ رستے میں اُسے اپنا باپ مل گیا، جو پٹواری کی گائے کے لیے چارہ کاٹ کر لا رہا تھا۔

 اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اورپھر ہر رونگٹے کی جڑ سے پسینہ پھوٹ نکلا۔۔۔  سلیٹ کے ٹکڑے کے تیز کنارے اس کے دماغ کو چیرنے لگے۔

باپ نے پوچھا: بیٹا! چھٹی ہوگئی؟

ہاں ابا۔۔۔!  ابا کہتے وقت اس کا حلق گھٹ گیا، لیکن کھانسی کا بہانہ کر لیا اور پھر اس غیر متوقع کامیابی پر جی ہی جی خوش میں ہونے لگا۔

گھر جا کر سلیٹ پر خوب سوال نکالنا۔

سلیٹ تو ٹوٹ گئی ہے۔ اس نے یہ جواب دینا چاہا، لیکن اس کی نظر باپ کے بھاری اور کھردرے ہاتھ پر پڑ گئی جو اس کے گال پر پڑتا تھا تو اُسے دن کے وقت میں بھی نیلے پیلے تارے نظر آنے لگتے تھے۔ اِس لیے وہ خاموش رہا۔ اس کے باپ نے پیچھے مڑتے ہوئے کہا: سُنا؟

ہاں۔۔۔!

اس کا باپ پٹواری کے گھر کی طرف چلا گیا اور وہ اپنے گھر آگیا۔ماں  کو دیکھ کر اس کا جی بھر آیا۔ آنسو اُمڈ آئے اور وہ زار زار رونے لگا۔

کیوں میرے بچے! تیرے دشمن روئیں تو کبھی نہ روئے۔ میرے بچے کیا بات ہے؟ یہ کہتے ہوئے ماں بڑی محبت سے اس کے سر اور گالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

ماں میری سلیٹ ٹوٹ گئی۔ اس کی ماں دھم سے دیوار سے  پیٹھ لگا کر بیٹھ گئی۔ جیسے اس کا نالائق بیٹا عمر بھر کی کمائی دریا میں بہا آیا ہے۔

 عزیز نے روتے ہوئے اپنی باچھوں کو پوری قوت سے ٹھوڑی کی طرف کھینچتے ہوئے کہا: اماں ! ابا کو نہ بتانا۔“

ماں نے اپنے کنگن کو مضطر بانہ اپنی کلائی میں گھماتے ہوئے پوچھا: تو پھر کیا سر پر نکالے گا سوال؟

 عزیز سوچنے لگا کہ اگر سر پر سوال نکالے جا سکتے تو وہ روتا ہی کیوں؟ اس کی ماں کتنی بھولی ہے۔ آخر اَن پڑھ ہے نا۔ پڑھی لکھی ہوتی تو اُسے معلوم ہوتا کہ سوال سر پر نہیں، صرف سلیٹ پر نکالے جا سکتے ہیں۔

اس دن نہ اس نے ماں سے گُڑ مانگا، نہ جوار کے ہلکے پھلکے مرنڈے۔ نہ کبڈی کھیلا نہ آنکھ مچولی۔۔۔  اس کے ہمجولی اس کے پاس اکٹھے ہوگئے اور مجبور کرنے لگے کہ باہر چلو، لیکن ایک سیانا لڑکا پیچھے سے مجمع کو چیرتا ہوا آیا اور بولا: ارے یار!جیبی کو مت چھیڑو۔ اس کی سلیٹ ٹوٹ گئی ہے۔

عزیز کے دل پر جیسے کسی نے من بھر کا ہتھوڑا جما دیا۔ کانپ اُٹھا کہ کہیں باپ تو نہیں آگیا، لیکن بیل کے چارے کے انتظار میں کان کھڑے ہوگئے جو دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے اور ماں چولہے کے پاس بیٹھی ٹین کے پترے سے ساگ کُتر رہی تھی۔

بس وہ چار پائی پر پڑا رہا اور کچھوے خرگوش کی کہانی پڑھتا رہا۔اچانک اُس کی اُداس آنکھیں چمک اُٹھیں۔

جیسے…! اور پھر اُسے اپنے آپ پر اتنا غصہ آیا کہ جی میں آیا، ابھی اپنے آپ کو قبر میں دفن کر دے اور اپنی موت پر ایک آنسو تک نہ بہائے اور پھر خوشی خوشی اسکول۔۔۔  اس کا دماغ گھومنے لگا۔ جتنا خیالات کا سلسلہ بڑھتا جاتا تھا،اس کی وحشت میں اضافہ ہوتا جاتا تھا اور جب اندھیرا بڑھنے لگا تو اس کی ماں پکاری: جی جے اِدھر آ! روٹی ٹھنڈی ہو رہی ہے۔

تو بے اختیار اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے: اماں!میری سلیٹ جو ٹوٹ گئی ہے۔

کب؟مگر یہ ماں کی آواز نہ تھی۔ اس نے سامنے دیکھا۔ اس کا باپ بڑی بڑی آنکھیں نکالے اس کی طرف بڑھا آرہا تھا۔

کب توڑی…؟

اس نے اپنے آپ کو قبر میں دفن کرنے کی تجویز پر پھر غور کرنا چاہا، مگر باپ کے تھپڑنے اس کے سلسلہ خیالات کو بُری طرح منتشر کر دیا اور وہ اتنا رویا۔۔۔  اتنا رویا کہ آخر اُسے رونے میں لطف آنے لگا۔ وہ اپنا رونا بند نہیں کرنا چاہتا تھا، کیونکہ اس طرح ماں کی تسلیوں کے رُک جانے کا اندیشہ تھا۔

چپ کرتا ہے یا لگاؤں ایک اور؟ اور اس کی آواز یوں رُک گئی، جیسے ریڈیو سے کسی میم کا گانا سنتے سنتے تنگ آ کر ہندوستانی لوگ پیچ گھما دیتے ہیں۔

سلیٹ بھی توڑ آیا اور ریں ریں بھی کیے جاتا ہے۔۔۔ اندھا۔۔۔  اندھے تو سامنے دیکھ کر کیوں نہیں چلتا؟۔۔۔  ہیں۔۔۔ ! یہ ہمیشہ تیری نظر آسمانوں پر کیوں رہتی ہے؟ جیسے اللہ میاں سے باتیں ہو رہی ہیں۔۔۔ ! اندھا۔۔۔  تُو تو مجذوب ہے

مجذوب۔۔۔ ! کتنی بڑی گالی دی ہے ابا نے۔۔۔  ابا کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں اُسے اٹھارہ بار مجذوب کہہ ڈالتا۔

اور جب اس کا باپ اُٹھ کر چوپال کو چلا گیا تو اس نے نہایت رازدارانہ لہجے میں پوچھا: ماں!  مجذوب کسے کہتے ہیں؟

جسے اللہ میاں کے سوا کسی کا خیال نہ ہو۔۔۔ یعنی اللہ میاں کا دوست۔

اور عزیز سوچنے لگا: اللہ میاں کا دوست ہونا کیا بُری بات ہے؟

وہ صبح اُٹھا تو باپ اس کے سرہانے کھڑا تھا۔

اُٹھتا بھی ہے اب کہ جماؤں ایک۔۔۔ ؟ بے فکر۔۔۔ ! لے یہ چونی، تیری خاطر دس آدمیوں کی داڑھیوں کو ہاتھ لگانا پڑا۔ ابھی قصبے سے جا کر سلیٹ خرید لا۔ اسکول کے وقت آجائیو۔۔۔  سمجھے؟

عزیزنے چارپائی سے اُٹھ کر زمین پر قدم دھرا تو اُسے یوں محسوس ہوا، جیسے اس کا دل اس کی پسلیوں تلے ناچ رہا ہے اور اس کی آواز کے ساتھ اس کے ہونٹ کانپ رہے ہیں، آنکھیں آپ ہی آپ جھپکی جا رہی ہیں، نتھنے پھڑ ک رہے ہیں، رگ رگ دھڑک رہی ہے۔

 وہ باپ سے چونی چھین کر دوڑا ہی تھاکہ اُسے ایک آواز سنائی دی: ارے مجذوب! جوتا تو پہنتا جا، تیرا تو سر پھر گیا ہے۔

 اس نے مُڑنے سے پہلے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اس کا خیال تھا اس کا چہرہ  پیٹھ کی طرف ہو گیا ہے۔  باپ کے تھپڑ کی وجہ سے آخر سر پھرنے کا اور کیا مطلب ہے؟ اور جب اُسے تسلی ہوگئی کہ وہ اپنی پرانی حالت پر قائم ہے تو اُسے تعجب ہونے لگا کہ اس کا باپ اتنا جھوٹ کیوں بولتا ہے؟

وہ جوتا پہن کر بھاگا۔ قصبہ وہاں سے ایک میل دُور تھا۔ چونی اس کی قمیص تلے پہنی ہوئی پرانی سیاہ صورت کی واسکٹ کی جیب میں تھی۔ جسے اس نے مضبوطی سے ہاتھ میں دبا رکھا تھا۔ ایک دو بار اس نے چونی کے گول گول کونوں کو ٹٹولا۔ چونی اس کی جیب میں موجود تھی اور نئی سلیٹ قصبے کی ایک دکان میں اس کی منتظر۔۔۔

ایک جگہ وہ قدرے سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔اچانک سامنے جھاڑی سے اصغر نکلا۔ اس کے ہاتھ میں اپنی نئی سلیٹ تھی۔ جس کے ساتھ مٹھی بھر اسفنج لٹک رہا تھا۔ اصغر نے اپنی سلیٹ کو فخریہ انداز سے ہوا میں گھمایااور عزیز نے محسوس کیا، کہ اس کے ہاتھ میں بھی نئی سلیٹ ہے جو ٹین کی طرح بجتی ہے اور جس کے ساتھ ماسٹر جی کی ناک جتنا موٹا اسفنج لٹک رہا ہے (ماسٹر جی کی ناک عزیز کی مٹھی سے بڑی تھی)۔

اصغر کی آنکھیں جھک گئیں اور وہ پلٹ کر پھر جھاڑی میں گم ہو گیا۔

کتنا پیارا خیال! کیسا سندر سپنا! وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا اور پھر دوڑنا شروع کر دیا۔ قصبے کے تنگ و تاریک بازار کی دکانیں کھل چکی تھیں۔ وہ سلیٹوں والی دکان کو خوب پہچانتا تھا۔ دکان دار ایک موٹا سا سیٹھ تھا، جس نے اپنی ڈھیلی ڈھالی توند اپنے گھٹنوں پر پھیلا رکھی تھی۔ وہ صرف ایک دھوتی باندھے ہوئے تھا۔

عزیز ہانپتے ہانپتے اس کے پاس گیا۔

سلیٹیں ہیں؟ یہ سوال اس نے اس انداز سے پوچھا، گویا وہ ساری دکان خریدنے آیا ہے۔

دکان دار نے اپنی ناف پر سے بھنبھناتی مکھیاں اُڑاتے ہوئے جواب دیا: ہاں!

دکھاؤ۔۔۔!

دکان دار نے اپنے بازو زمین پر ٹیک کر اُٹھنے کی کوشش کی اور بہت دیر تک اسی حالت میں ہانپتا رہا۔

۔۔۔! عزیز پکارا: لالہ جی

ہاں بھائی ہاں۔۔۔ دکان دار اُٹھ کھڑا ہوا اور عزیز کے سامنے دس پندرہ سلیٹیں رکھ دیں۔

لوہے کی ہیں؟

سب لوہے کی ہیں۔

دام۔۔۔؟

تین آنے۔۔۔!

ایک آنہ بچ گیا۔ عزیز کے گال تمتمانے لگے۔ اس کی ننھی سی ناک پر اس کے کھلے سفید ماتھے پر اس کے بھرے بھرے سے نچلے ہونٹ کے تلے پسینہ پھوٹ آیا۔ اُسے محسوس ہوا، جیسے وہ ابھی یہاں سے دکان سمیت ہوا میں اُڑ جائے گا۔

اسفنج ہیں؟

ہاں۔۔۔!

سب سے بڑے اسفنج کے دام؟

چار پیسے۔۔۔!

عزیز خوشی سے ناچنا چاہتا تھا۔ ایک بار تو اُس کے جی میں آیاکہ دکان دار سے لپٹ کر گائے۔

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

دونوں چیزیں لے کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اس کی انگلیاں جیب سے باہر نکل گئیں۔ چونی راستے میں گر گئی تھی۔

شیئر کریں
67
1