دنیا کی کم  عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم سے آدھی ملاقات

کم عمری  میں ہی اپنی محنت، ذہانت اور خداداد صلاحیتوں سے ایک ہی  جست میں محبت، شہرت اور عزت حاصل کرنے والی ارفع کریم پاکستان کا فخر ہے۔ نو سال کی عمر میں کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کرکے سائبر پرنس بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ مائیکرو سافٹ ہیڈکوارٹر، امریکہ میں بل گیٹس کے ساتھ یادگار تصویر ارفع کریم کے کارنامے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنی ذہانت کے باعث وہ  ملک کے سب سے بڑے  سول ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس کی حق دار بھی بنیں۔ ارفع کے باعث جو عزت اس ملک وقوم کو ملی، وہ ناقابل فراموش ہے۔ ارفع کی  زندگی صرف سائنس و ٹیکنالوجی تک ہی محدود نہ تھی، وہ الفاظ کو خوبصورت شعروں میں پرونا بھی خوب جانتی تھی، پھر 22 دسمبر 2011ء کو ارفع کریم اچانک کارڈیک اریسٹ کا شکار ہوئی اور اس ذہین دماغ پر خاموشی چھا گئی۔ 14 جنوری 2012ء کو قوم کی یہ ہونہار بیٹی ہمیشہ  کے لیے الوداع کہہ گئی۔ بچھڑنے سے پہلے ارفع نے جو فخر اس ملک و قوم کو دیا ، وہ آج بھی قائم ہے۔ یہ انٹرویو ارفع کریم پر لکھی گئیں مختلف کتب اور ٹی وی چینلز سے اخذ کیا  گیا ہے۔

٭٭٭٭٭

روشنی: مکمل نام؟

ارفع کریم: ارفع کریم رندھاوا۔

روشنی:آپ کب اور کہاں پیدا ہوئیں؟

 ارفع کریم:2 فروری 1995ء کو لاہور میں پیدا ہوئی۔

روشنی:والد اور والدہ کا نام؟

 ارفع کریم:والد کا نام امجد کریم رندھاوا اور والدہ کا نام ثمینہ کریم رندھاوا ہے۔

روشنی:والد کا پیشہ؟

 ارفع کریم:آرمی آفیسر ہیں۔

روشنی:آبائی گھر؟

 ارفع کریم:رام دیوالی، ضلع فیصل آباد،پاکستان۔

روشنی:آپ کتنے بہن بھائی ہیں اور ان کے نام؟

 ارفع کریم:میرے دو بھائی سرمد کریم اور داؤد کریم جو مجھ سے چھوٹے ہیں، بہن کوئی نہیں ہے۔

روشنی:اسکول کا نام جہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کی؟

 ارفع کریم:ملتان پبلک اسکول،   مردان سٹی اسکول اورلاہور گرامرا سکول۔

روشنی:اسکول میں کیسی قابلیت تھی؟

 ارفع کریم:میں تین سال کی تھی کہ پہلی کلاس میں داخلہ ملا، کیونکہ بنیادی کورسزاردو اور انگریزی حروفِ تہجی اور گنتی تو گھر پر ہی مکمل کر لیے تھے۔ بہت ذہین اور قابل طالبہ تھی۔

روشنی:بچپن کیسا گزرا؟

 ارفع کریم:بہت شرارتی۔۔۔ میں اپنے چھوٹے بھائیوں کو بہت تنگ کرتی تھی۔

روشنی:والدین میں زیادہ کس کے قریب ہیں؟

۔ ارفع کریم:دونوں کے قریب ہوں لیکن بابا سے زیادہ ہوں میرے لاڈ وہی اٹھاتے ہیں

روشنی:فطرتاً طبیعت کیسی ہے؟

 ارفع کریم:خوش مزاج اور ہنس مکھ ہوں۔

روشنی:پسندیدہ رنگ؟

 ارفع کریم:مجھے رنگوں سے پیار ہے، تمام رنگ پسندیدہ ہیں۔

روشنی:پسندیدہ پکوان؟

ارفع کریم:بریانی پسندیدہ ہے۔ اس کے علاوہ بھنڈی اور بھرے ہوئے ٹینڈے بہت پسند ہیں۔

روشنی:پسندیدہ لباس؟

ارفع کریم:لباس کے معاملے میں زیادہ پریشان نہیں ہوتی۔ امی جو سلوا کر دیتی ہیں بخوشی پہن لیتی ہوں۔

روشنی:پسندیدہ شاعر؟

 ارفع کریم:علامہ اقبال اور بابا بلھے شاہ۔

روشنی:پسندیدہ کھیل؟

 ارفع کریم:ہینڈ ڈرل اور گالف کھیلنا پسند ہے۔

روشنی:ادبی ذوق کیسے پیدا ہوا؟

 ارفع کریم:ہمارے گھر میں بچپن سے ہی رسالے، کتابیں اور اخبارات آتے تھے۔ گھر کے بڑوں کو کتابیں پڑھتے دیکھا تو مجھے بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ شوق کا یہ عالم ہے کہ جب ایک بار کتاب پڑھنا شروع کر دیتی ہوں تو اسے مکمل پڑھے بغیر سکون نہیں ملتا اور میں سو نہیں پاتی۔

روشنی:کون سی زبانوں پر عبور حاصل ہے؟

 ارفع کریم:اردو، انگریزی، پنجابی، پشتو اور فرانسیسی۔

روشنی:فرانسیسی زبان کس حوالے سے سیکھی؟

ارفع کریم: بس یہ چاہتی تھی کہ یہ بھی آنی چاہیے، بہت اچھی زبان ہے۔ امریکی انگریزی بھی پسند تھی اور امریکہ جانے کا شوق بھی بہت تھا۔

روشنی:تعلق تو آپ کا فیصل آباد کے گاؤں رام دیوالی سے ہے مگر آپ تو امریکی لہجے میں انگریزی بولتی ہیں۔ یہ لہجہ کہاں سے سیکھا؟

 ارفع کریم: میں نے انگریزی کتابیں پڑھ کر اور کارٹونزدیکھ کر سیکھا تھا اوربول بول کر۔ جس لہجے میں آپ بولنا شروع کرتے ہیں وہ آپ کا لہجہ بن جاتا ہے، تو کارٹونز کی وجہ سے زیادہ بہتری آئی۔

روشنی:آپ نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں خوب شاعری کی۔ زندگی کا پہلا شعر کون سا ہے؟

 ارفع کریم:گھر میں سب پیار سے امی کو چاند کہہ کر پکارتے تھے۔ ایک شام میں اپنی امی اور چھوٹے بھائی سرمد کے ساتھ کھیل رہی تھی، اچانک میں نے چاند کی طرف دیکھا پھر اپنی امی کی طرف تو بے اختیار لبوں پر شعر آ گیا اور یہ میری زندگی کا پہلا شعر ہے

؎جیسے چاند روشن ہوتا ہے ناں

ایسے میری ماما کا نام ہے چاند

روشنی:آپ نے بہت کم عمری میں ہی گائیکی میں خوب نام پیدا کیا۔ یہ لگاؤ کیسے پیدا ہوا؟

 ارفع کریم:میں تین چار سال کی تھی اور ملتان پبلک اسکول میں ہی تھی جب ملی نغموں کے مقابلوں میں شریک ہونا شروع کر دیا۔ پہلے ہی مقابلے میں کافی پذیرائی ملی، پھر سٹی اسکول میں داخل کرایا گیا تو وہاں بھی نعت خوانی کے مقابلوں میں اول پوزیشن لیتی رہی،کہیں نظمیں پڑھتی، کہیں تقریری مقابلوں میں حصہ لیتی۔ میں نے مشکل گیت بھی گائے۔ اساتذہ کرام حیرت سے پوچھتے کہ موسیقی میں میرا استاد کون ہے؟ جبکہ میں نے کسی استاد یا ادارے سے گائیکی کی کوئی تربیت حاصل نہیں کی۔

روشنی:گائیکی سے منسوب کوئی واقعہ بتائیں جو آپ کو آج بھی یاد ہو؟

 ارفع کریم:یہ دسمبر 1998ء کی کوئی تاریخ تھی جب میں نے ملتان میں پہلی بار اسٹیج پرفارمنس دی۔ میں تب چار سال کی تھی۔شدید دھند اور سردی تھی۔ ملتان کے سروسز کلب میں ابرار الحق کا کنسرٹ تھا۔ انھوں نے میرے بابا سے ملاقات کی تو میں انھیں کہنے لگی: انکل! مجھے آپ کے گانے آتے ہیں۔اور ایک گیت بھی سنایا۔ میں نے انھیں ایلیسن ڈیون کا گیت بھی سنایا تو وہ متاثر ہوئے اور کہنے لگے: بیٹا! پروگرام میں گانا سناؤ گی؟میں نے پر اعتماد ہو کر کہا: جی ہاںسناؤں گی۔انھوں نے اسٹیج پر میرا یوں تعارف کروایا: خواتین و حضرات! آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔ ہم نے امریکہ سے ایلیسن ڈیون کو بلایا ہے جو آپ کے لیے گانا گانے والی ہیں۔ پھرمیں نے پہلی بار اسٹیج پر گیت گایا۔ اس کے بعد دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ جب ابرار الحق اپنے مداحین کو آٹو گراف دے رہے تھے ایک بچے نے اپنی آٹو گراف بک مجھے تھما دی۔ اس وقت مجھے اے بی سی ہی آتی تھی اور میں نے وہی آٹو گراف پر لکھ کر بچے کو تھما دی۔

روشنی:پہلی بار کمپیوٹر کو کہاں دیکھا؟ اور اسے خریدنے کی خواہش کیسے پیدا ہوئی؟

 ارفع کریم:میں نے اپنے سکول میں او لیول کے بچوں کو کمپیوٹر لیب میں کام کرتے دیکھا کہ وہ بٹن دباتے ہیں اور مانیٹر پر منظر ہی بدل جاتا ہے،کبھی کچھ لکھا آ جاتا ہے اور کبھی کوئی تصویر نمودار ہو جاتی ہے۔ اسی تجسس میں، میں نے بابا سے کہا کہ مجھے کمپیوٹر لے دیں۔میں تب چوتھی جماعت کی طالبہ تھی۔ میرے والدین کے لیے میری یہ خواہش حیران کن تھی،پھر میرے بابا نے مجھے کمپیوٹر خرید کر دیا۔جہاں سے خریدااُنھوں نے استعمال کا تھوڑا بہت طریقہ سمجھا دیا تھا۔اگلے چند ہی روز میں نے کمپیوٹر چلانا اور کمانڈ دینا سیکھ لیا۔

روشنی:کمپیوٹر کو مزید سیکھنے کی باقاعدہ تربیت کس سے لی؟

 ارفع کریم:گھر کے قریب ہی کمپیوٹر کی تربیت کا ادارہ قائم تھا۔ میرے بابا مجھے وہاں لے گئے۔مجھے دیکھ کر وہاں موجودسبھی لوگ ہنس پڑے۔بقول ان کے بڑی عمر کی بچیوں کو کمپیوٹر سکھایاجاتا ہے۔ میرے بابا کے پرزور اصرار پر انھوں نے مجھے سے بات کی، پھر مجھے کمپیوٹر سکھانے کے لیے ہامی بھر لی۔ مجھے سر خرم حنیف اور سر سہیل احمد کمپیوٹر کی تربیت دیتے تھے۔

روشنی:کس عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کیا؟

 ارفع کریم:نو سال کی عمر میں۔

روشنی:کیا آپ کو اندازہ تھا کہ اتنا بڑا معرکہ سر کر لیں گی؟

 ارفع کریم:اس وقت تو مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کر لوں گی تو مجھے اتنا بڑا اعزاز مل جائے گا۔

روشنی:آپ کے اساتذہ آپ کے بارے میں کتنا پر امید تھے؟

 ارفع کریم:وہ بہت پُر امید تھے۔ میں نے دو سال کا کورس چار ماہ میں مکمل کر لیا تھا۔ انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ اگر میں نے مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کر لیا تو یہ ایک عالمی ریکارڈ ہو گا۔

روشنی:جب آپ مائیکروسافٹ سرٹیفیکیشن کا امتحان دے رہی تھیں تو کتنی دعائیں مانگتی تھیں اپنے لیے اور کیا مانگتی تھیں؟

 ارفع کریم:میں جب امتحان دے رہی تھی تو میری ایک ہی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ اگر آپ کو میری کوئی بھی بات اچھی لگتی ہے تو بس میرا پرچہ اچھا کروا دیں ، تو پھر بس ہو گیا میرا پرچہ اچھا۔

روشنی:مائیکروسافٹ کے مالک اور دنیا کے سب سے امیر آدمی بل گیٹس سے ملاقات کی۔ آپ کے کیا تاثرات تھے؟

 ارفع کریم:اس وقت میں بہت خوش اور پرجوش تھی کہ میں امریکہ جا رہی ہوں۔ بل گیٹس سے مل رہی ہوں، کیونکہ بل گیٹس سے ملنا میرا ایک خواب تھا۔

روشنی:پوری دنیا کو جب آپ کے متعلق علم ہوا کہ بل گیٹس نے آپ کوملاقات کے لیے دعوت دی، یہ کیسے ممکن ہوا؟

 ارفع کریم:جب میں نے پاکستان میں مائیکرو سافٹ پروفیشنل سرٹیفائیڈ کا امتحان پاس کر لیا تو میرے بابا نے پہلے مائیکروسافٹ پاکستان سے رابطہ کیا۔ ان کی اپنی ٹیم آئی تھی۔انھوں نے میرا امتحان لیا۔ پریکٹیکل تھا اور مختلف قسم کے سوال جواب تھے۔ انہوں نے صرف یہ نہیں دیکھا کہ مجھے امتحانی موضوعات کے بارے میں معلومات تھیں بلکہ انھوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ میں پر اعتماد ہوں، لوگوں کا سامنا کر سکتی ہوں اور اپنے شعبے کے بارے میں جانتی ہوں۔ اور جب مسٹر بل گیٹس کو یہ سب باتیں پتا چلیں تو انہوں نے مجھے بلایا تھا۔

روشنی:سنا ہے کہ آپ نے فلائٹ کے دوران بل گیٹس پر نظم بھی لکھی؟

ارفع کریم: جی ہاں! مجھے فلائٹ میں بہت بوریت محسوس ہو رہی تھی اس لیے میں نے تھوڑی شاعری کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ نظم میں نے آدھے گھنٹے میں لکھی۔

روشنی:بل گیٹس کا ہر سیکنڈ سیکڑوں ڈالرز کا ہوتا ہے۔ آپ کی ملاقات ان سے کتنے منٹ کی رہی؟

ارفع کریم:میں نے ان سے دس منٹ ملاقات کی اور یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت سادہ شخص ہیں۔

روشنی:بل گیٹس سے ملاقات کر کے کیسا لگا؟

 ارفع کریم:میں سمجھتی تھی کہ وہاں اس کا سب سے بڑا آفس ہو گا مگراس کا تو عام سا دفترتھا، کوئی رعب داب نہیں تھا۔اس کا لہجہ اتنا نرم اور عاجزانہ تھا کہ مجھے یقین کرنے میں وقت لگاکہ جس آدمی سے ملنا اتنا مشکل تھا وہ خود کس قدر سادہ،نرم دل اور حوصلہ افزائی کرنے والا تھا۔انہوں نے میرے تمام سوالات کے جواب اچھے انداز میں دیے۔مجھے نصیحتیں بھی کیں۔میں نے جو بھی کہا انہوں نے مجھے دیا۔میں نے ان سے تصویر مانگی وہ انہوں نے مجھے دی اور میری بھی تصویر ان کے ساتھ ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ پاکستان آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ وہ میرے بلانے پر ضرور آئیں گے۔

روشنی:آپ کے خیال میں ہمارے ملک میں بل گیٹس اور فیس بُک کے بانی مارک زکر برگ جیسے لوگ کیوں نہیں؟

ارفع کریم:مجھے لگتا ہے ہمارے نوجوان ماہ وسال کے حوالے سے نوجوان ہیں۔ جدت پسندی، تخلیقی صلاحیتوں اور جرأت مندانہ فیصلوں کے حوالے سے کافی کمزور بلکہ اکثر تو عمر رسیدہ لگتے ہیں، اگر ایسی صورتحال جاری رہی تو ہمارے ہاں مائیکرو سافٹ چیئرمین بل گیٹس اور فیس بُک کے بانی مارک زکر برگ جیسے لوگ پیدا نہیں ہوں گے۔

روشنی:بل گیٹس سے ملاقات کے بعد صدرپرویز مشرف نے آپ کو اپنے گھر دعوت پر بھی بلایا۔ ان سے کیا کیا باتیں ہوئیں؟

 ارفع کریم:انھوں نے مجھ سے بہت سی باتیں کیں۔ مجھ سے بل گیٹس کی ملاقات کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے مجھے آٹوگراف دیا اور بہت اچھی اچھی باتیں مجھے آٹو گراف میں لکھ کر دیں۔ سب سے اچھی بات جو مجھے لگی وہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ میرا ساتھ دیں گے۔

روشنی:سنا ہے کہ آپ نے کم عمر ترین ہوا باز کا سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کیا؟

 ارفع کریم:مجھے آئی ٹی پروفیشنلز دبئی نے دبئی میں پانچ روزہ قیام کی دعوت دی۔اس پروگرام میں مجھے خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔انہی دنوں دبئی میں ہی میں نے زندگی میں پہلی بار جہاز اڑایا اور تربیت حاصل کر کے فلائنگ کلب دبئی سے فلائنگ سرٹیفیکیٹ حاصل کیا۔

روشنی:کلاس میں خود کو کیسا محسوس کرتی ہیں؟ ذہانت، قابلیت اور شرارتوں میں کون آگے ہوتا ہے؟

ارفع کریم:میں اپنی ہم جماعت سہیلیوں کے ساتھ گھل مل جاتی ہوں۔ میں ایسا محسوس نہیں کرتی کہ میں ان سے مختلف ہوں یا میں نے ایم پی سی کیا ہوا ہے اور نہ ہی میں ایسا سوچتی ہوں کہ میں مشہور ہوں تو مجھے ان سے مختلف لگنا چاہیے۔ ہم لوگ ایک ساتھ ہوتے ہیں تو بہت مزہ آتا ہے، بہت ساری شرارتیں بھی کرتے ہیں۔

روشنی:کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے کمپیوٹر کے میدان میں کامیابی حاصل کر لی ہے تو یہ آپ نے والدین کے دباؤ میں آ کر کیا؟

 ارفع کریم:ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ میرے والدین نے کبھی مجھ پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا۔ مجھے کمپیوٹر میں دلچسپی ہے، اور اگر کسی بھی شعبے میں ایک شخص کی دلچسپی نہیں ہے تو وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا چاہے کوئی کتنی ہی زبردستی کیوں نہ کر لے۔

روشنی:پڑھائی کے علاوہ اور کیا دلچسپیاں ہیں؟

ارفع کریم:میں بھرپور طریقے سے ہر کام میں حصہ لیتی تھی۔ ڈرائنگ کا شوق ہے۔کھانا بھی بنا لیتی ہوں، خاص طور پر چائنیز۔ شادیوں میں بھی خوشی سے شرکت کرتی ہوں۔

روشنی:کیاآپ کھلونوں سے کھیلتی تھیں یا صرف پڑھائی پر ہی دھیان رہتا تھا؟

ارفع کریم: گڑیوں سے کھیلتی تھی اور اب بھی کھیلتی ہوں۔ سکول کی طرف سے منعقد ہونے والے مختلف مقابلوں میں حصہ بھی لیتی تھی۔

روشنی:کس قسم کی گڑیا پسند ہے؟

 ارفع کریم:(ہنستے ہوئے) عام باربی ڈول۔

روشنی:آپ اپنی کامیابی کا کریڈٹ کسے دینا چاہیں گی؟

 ارفع کریم:اپنے والدین کو کہ انھوں نے کبھی مجھے کسی کام سے منع نہیں کیا۔ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔ہرقدم پر ساتھ دیا۔ اس کے بعد اپنے اساتذہ کو کہ جب انھیں میری صلاحیتوں کا اندازہ ہوا تو انہوں نے بہت محنت کی اور میری صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔

روشنی:آپ خود کو کس کام میں پرسکون محسوس کرتی ہیں؟ جب آپ سافٹ ویئر پر کام کررہی ہوتی ہیں یا کوئی نظم لکھ رہی ہوتی ہیں؟

ارفع کریم:جب میں سافٹ ویئر پر کام کر رہی ہوتی ہوں تو میں خود کو ایم سی پی یعنی پروفیشنل ہی محسوس کرتی ہوں، اگر میں شاعری کر رہی ہوتی ہوں یا کوئی اور کام تو میں خود کو ایک بچہ محسوس کرتی ہوں، ہر کام کا ایک الگ احساس ہوتا ہے۔

روشنی:آپ کی زندگی کا مقصد؟

ارفع کریم:میرا خواب ہے کہ پاکستان میں ہی سلیکان ویلی جیسی ہی ڈیجی کون ویلی بناؤں۔جو تجارتی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کی ترقی کے لیے ہو گی۔ایک ایسا انسٹی ٹیوٹ جو کہ دنیا کے تمام بچوں کے لیے ہو گا نہ کہ صرف پاکستان کے بچوں کے لیے۔ جو افورڈ نہیں کرسکتے ان کے لیے رہائش،تعلیم اور صحت کی مفت سہولیات ہوں گی۔

روشنی:کمپیوٹر کی دنیا میں جو لوگ ہوتے ہیں ان کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ کوئی اور کام نہیں کرتے، لیکن آپ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ یہ سب کیسے کر لیتی ہیں؟

ارفع کریم:آپ کو کسی ایک چیز تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ آپ کا سکوپ بہت وسیع ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ آپ صرف خود کو کمپیوٹر کی دنیا تک محدود کر لیں۔ اپنی شخصیت کو پہچانیں۔ اور پر عزم ہو کر کام کریں۔

روشنی:عزت، فخر اور شہرت کا احساس کس قدر محسوس ہوتا ہے؟ عموماً ایسے لوگ دوسروں سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے جیسا کہ نارمل لوگ کرتے ہیں؟

 ارفع کریم:میں فخریہ انداز کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ غرور سے کبھی آپ کا فائدہ نہیں ہوتا اور میرے والد اور والدہ نے ہمیشہ مجھے سکھایا ہے کہ عاجزی اختیار کرنی چاہیے، ہمیشہ منکسر المزاج رہنا چاہیے۔

روشنی:وہ بچے جن کے پاس آگے بڑھنے کے لیے وسائل و ذرائع نہیں ہیں، انھیں کیا کرنا چاہیے؟

ارفع کریم:یہ بات کبھی نہیں کہنی چاہیے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں۔ سب انسان ایک جیسے پیدا ہوتے ہیں۔ہمارے پاس جو وسائل ہیں۔ان کے اندر سے باہر نکلنا چاہیے۔اپنے اندر اعتماد پیدا کرنا چاہیے۔ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ ہمارے اندر کسی کام کو کر گزرنے کی کتنی طاقت اور صلاحیت ہے۔ ہمیں کسی کے آنے اور دستک دینے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

روشنی:زندگی میں کامیابی کے لیے کیا ضروری ہے؟

ارفع کریم:زندگی میں صرف کامیابی ضروری نہیں ہوتی، ایک انسان کی پوری شخصیت معنی رکھتی ہے۔ اس کا بولنا، اخلاص، اخلاقیات، اس کا مذہبی رجحان، اس کا دوسرے لوگوں کے ساتھ برتاؤ یہ ہر چیز معنی رکھتی ہے۔

شیئر کریں
111
1