کمال احمد رضوی

سنتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں جانوروں کو بھی خد انے اتنی عقل دی تھی کہ وہ انسانوں کی طرح محنت سے کھیتی باڑی کرتے تھے، وہ کھیت کو ہل سے جوتتے، اس میں بیج بوتے اور جب فصل پک کر تیار ہوجاتی تو اسے غلہ کے گودام میں بھر لیا کرتے۔ یہ غلہ گھر، بالکل گھاس پھوس کی جھونپڑیوں کی طرح گول بنا ہوتا تھا، البتہ اس میں دروازہ کی بجائے چھپر کے ذرا نیچے ایک گول سوراخ ہوا کرتا تھا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خرگوش اور دوسرے جانور برسات آنے سے پہلے پہلے تمام فصل کاٹ کر غلہ گھروں میں بھرنے لگے اور جب تمام فصل کٹ چکی اور سارا اناج غلہ گھروں میں بھر چکا تو انہوں نے مل کر سوچنا شروع کیا: ہم نے سال بھر کی خوراک تو مہیا کرلی۔ اب برسات کہاں جا کر کاٹیں؟

تمام جانور کھیت میں جمع تھے اور الاؤ جل رہا تھا۔ الاؤ کی روشنی میں سارے ایک ساتھ بیٹھے ہوئے گپیں لگا رہے تھے، کیونکہ انہوں نے تمام وقت محنت سے کام کیا تھا اور اب تمام برسات کے لیے چھٹی ہوگئی تھی۔

ان کے درمیان ایک چالاک خرگوش بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے جو سنا کہ جانوروں کا ارادہ کہیں اور جاکر برسات کاٹنے کاہے تو اس کی آنکھیں شرارت سے چمکنے لگیں اور وہ بولا: بھئی!  میں تو یہاں سے بہت دور ایک رشتہ دار کے ہاں جارہا ہوں۔ اس جگہ کو لوگ ڈم ڈم ڈیگاڈیگا کہتے ہیں۔

دوسرے جانوروں نے بھی اپنے رشتہ داروں یا جنگلوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ وہ کس کے ہاں جائیں گے اور آخر سب ہی نے اپنے اپنے لیے مختلف جگہوں پر جانے کے بارے میں سوچ لیا۔

دوسری صبح انہوں نے اپنے اپنے مویشی اکٹھے کیے اور اپنی اپنی جگہوں کو چل پڑے۔

اچھا بھئی، خدا حافظ! خرگوش انہیں رخصت کرتے ہوئے بولا۔زندگی رہی تو اب اگلے موسم میں آکر ملیں گے پھر اپنی اپنی کھیتی باڑی کاکام شروع کردیں گے۔

وہ خود بھی ان سے رخصت ہوا اور چل پڑا، لیکن جیسے ہی دوسرے تمام جانور اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے خرگوش واپس غلہ گھروں کی طرف لوٹ آیا، اور آتے ہی پہلے غلہ گھر پر دھاوا بول دیا۔ اندر پہنچ کر خرگوش نے اناج پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا تو بس کھاتاہی چلا گیا۔ جب کھا کھا کر بس ہوگیا تو وہیں اناج پر ہی ٹانگ پسار کر سو گیا اور دوسرے روز جیسے ہی آنکھ کھلی پھر کھانا شروع کردیا۔آخر چند ہفتوں کے بعد پہلا غلہ گھر بالکل خالی ہوگیا۔

خرگوش نے دل میں کہا: بس اب یہاں کاکام تو ختم ہوگیا اب دوسرے غلہ گھر پر ہاتھ صاف کروں۔ لیکن سب سے پہلے اس نے غلہ گھر کو ریت سے بھر دیا، پھر وہ دوسرے غلہ گھر کے اندر پہنچ گیا اور وہاں بڑے آرام سے کئی ہفتوں تک کھاتا رہا، جب وہ بھی خالی ہوگیا تو اس نے پہلے غلہ گھر کی طرح اسے بھی ریت سے بھر دیا۔چنانچہ برسات بھر اس مکار جانور نے بڑے آرام کے ساتھ زندگی بسر کی اور دوسروں کی محنت سے جمع کیے غلوں پر خوب ہاتھ صاف کیے۔ جیسے ہی برسات کا موسم ختم ہوا خرگوش تمام غلہ گھر کو ایک ایک کرکے خالی کر چکا تھا اور اب سارے غلہ گھر، اناج کی بجائے ریت، کنکر اور مٹی سے بھرے ہوئے تھے۔

آخر کچھ دنوں بعد تمام جانور مقررہ دن واپس آگئے اور جب وہ اپنے گاؤں کے سامنے میدان میں جمع ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ خرگوش ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔

وہ خرگوش کہاں رہ گیا۔ جانوروں نے ایک دوسرے سے پوچھا۔

وہ تو سب سے پہلے پہنچ جاتا تھا۔ایک جانور نے جواب دیا۔ اس دفعہ معلوم ہوتا ہے وہ کہیں بہت دور چلا گیا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ اب کی دفعہ کوئی جگہ ڈم ڈم ڈیگا ڈیگا ہے، وہاں جائے گا۔ توپھر آؤ مل کر اسے پکاریں شاید وہ ابھی راستہ میں ہو۔ایک جانور نے تجویز پیش کی۔

سب جانور مان گئے اور انہوں نے مل کر پکارنا شروع کیا: خرگوش! اے خرگوش! کہاں ہو……ہو……ہو……ہو

اب آپ کو کیا بتاؤں کہ وہ مکار خرگوش وہاں سے کچھ زیادہ دور نہ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ تمام عرصہ ان غلہ گھروں سے لمحہ بھر کو بھی دور نہ ہوا تھا، اور جب کہ سارے جانور دور دور گئے ہوئے تھے وہ یہیں تھا اور اس وقت بھی یہ مکار جانور قریب ہی ایک جھاڑی میں چھپا ہوا تھا۔

جب اس نے جانوروں کی ہو کار سنی تو بڑی کمزور آواز میں اس طرح بولا جیسے بہت دور سے بول رہا ہو: آ……رہا……ہوں۔

جانوربولے: لو! وہ ابھی بہت دور ہے مگر اس نے ہماری آواز سن لی۔ انہوں نے اسے پھر پکارنا شروع کردیا: خرگوش! خرگوش! ارے بھئی کہاں ہو؟

اس دفعہ خرگوش کی آوازپہلے کے مقابلہ میں زیادہ صاف سنائی دی: آرہا ہوں۔ اور وہ اسی طرح جھاڑی کے اندر چھپا بیٹھا رہا اور پاس ہی پانی کے تالاب میں ایک دو ڈبکیاں بھی لگا لیں جس سے معلوم ہو کہ وہ چل چل کر پسینہ پسینہ ہوگیا ہے۔

جانور اسی طرح اسے پکارتے رہے اور خرگوش ہر بار اپنی آواز کو اونچا سے اونچا کرتا گیا اورپھر اچانک جھاڑی سے جست لگا کر وہ جانوروں کے سامنے جا پہنچا اور زور زور سے ہانپنے لگا: ہہ… ہہ…ہہ جیسے بے چارہ جانے کتنے میل سے چل کر آرہا ہو۔

لو اب ہم سارے جانور اکٹھے ہوگئے۔ جانوروں میں سے ایک نے کہا۔اب چل کر ذرا غلہ گھروں کو دیکھیں کہ سب اناج ٹھیک ٹھاک اور محفوظ تو ہے۔

خرگوش بولا: تم لوگ جاکر دیکھو میں تو چل چل کر اتنا تھک گیا ہوں کہ مجھ سے اب اٹھا نہیں جاتا۔

اور جب جانوروں نے جاکر غلہ گھروں کو دیکھا تو ایسی کھلبلی سی مچ گئی، ایسی چیخ و پکار پڑی جیسے قیامت ہی تو آگئی۔ جانوروں نے ایک ایک کرکے تمام غلہ گھر دیکھ ڈالے، سب کے سب خالی اور ریت سے بھرے ہوئے تھے۔

آخر کون ہوسکتا ہے جس نے ہمارا اناج چرایا ہے۔ انہوں نے سوچا۔

اس دفعہ ہم اپنے کھیتوں میں کیا بوئیں گے ہمارے پاس تو اناج کا ایک دانہ بھی باقی نہیں رہا۔ وہ سسکیاں بھرنے لگے۔

وہ چور ضرور ہم میں سے ہی کوئی ہے۔ ایک نے روتے ہوئے کہا۔

ہاں ہمارے علاوہ تو کسی کو ان غلہ گھروں کا پتہ تک نہیں۔

اور پھر سب کی آپس میں لڑائی ہونے لگی۔ وہ ایک دوسرے پر چوری کا الزام دھرنے لگے، کسی نے منہ پر پنجہ جڑا توکسی نے کسی کی ٹانگ کاٹ کھائی، کسی نے کسی کا کان چبا ڈالا تو کسی کی ناک زخمی ہوگئی۔ آخر سارے جانور لڑجھگڑ کر جب تھک چکے تو وہیں زمین پر ڈھیر ہوگئے اور اتنے میں رات ہوگئی۔

اب آؤ ہم سب سو جائیں۔ لومڑی نے تجویز پیش کی۔جب  چاند طلوع ہوگااور اس کی کرن جس جانور پر پہلے پڑے گی وہی چورقرار دیا جائے گا۔سب جانور اس بات کو مان گئے کیونکہ ان کا ایمان تھا کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب چاند دیکھتا رہتا ہے۔ اس لیے انہوں نے یہ فیصلہ چاند پر چھوڑ دیا۔

آؤ گلہری، میرے ساتھ آکر لیٹ جاؤ۔ خرگوش نے گلہری کی منت کرتے ہوئے کہا۔میں  سفر کرتے کرتے اس قدر تھک چکا ہوں کہ اگر میں اسی طرح سویا رہا تو میری ٹانگیں اکڑ جائیں گی اور پھر کبھی سیدھی نہ ہوں گی۔ تم میرے پاس ہوگی تو تم مجھے کروٹ بدلنے کو کہتی رہو گی۔

نیک صفت گلہری خرگوش کے ساتھ جاکر لیٹ گئی۔ جلد سارے جانور گہری نیند سونے لگے، کیونکہ سفر کی تھکان اور آپس میں جھگڑے کی وجہ سے ان کا جسم بالکل بے قابو ہوچکا تھا۔البتہ ان میں صرف ایک خرگوش تھا جس کو نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ تھکا ہو ابھی نہیں تھا کیونکہ وہ تو اس جگہ سے ایک روز کے لیے بھی کہیں باہر نہیں گیا تھا۔ اس لیے وہ جاگ کر چاند نکلنے کا انتظار کرسکتا تھا، اور پھر اسے اپنے دل میں دھڑکا لگا ہوا تھا کہ جیسے ہی چاند نکلے گا اس کی پہلی کرن اسی کے اوپر گرے گی۔

اس رات آسمان پربادل چھائے ہوئے تھے اور چاند بہت آہستہ آہستہ طلوع ہورہا تھا، مگر اچانک چاند کی کرنیں تیر کی طرح بادلوں کو چیرتی ہوئی زمین کی طرف آئیں اور خرگوش پر جاپڑیں، کچھ کرنیں گلہری کے اوپر بھی گر رہی تھیں، کیونکہ دونوں جانور بالکل پاس پاس لیٹے ہوئے تھے۔ خرگوش نے جیسے ہی کرنوں کو اپنے اوپر گرتے دیکھا اس کا دل دھک سے رہ گیا وہ بڑی احتیاط سے کہ کہیں گلہری کی آنکھ نہ کھل جائے خاموشی سے کرنوں سےدور  ہٹ کر جا لیٹا اور اس کے بعد اس نے گانا شروع کردیا۔ پہلے تو دھیمی آوازمیں گاتا رہا لیکن آہستہ آہستہ اس کی آواز اونچی ہوتی گئی، اور کئی جانور بھی جاگ پڑے۔

اس کے بعد خرگوش اس طرح آنکھ ملتے ہوئے اٹھا جیسے وہ ابھی نیند سے جاگا ہو اور اس نے گلہری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلا کر کہا: جس پر چاند کی کرنیں پڑ رہی ہیں۔ ہاں بالکل سیدھی گر رہی ہیں یہ کم بخت گلہری کی شرارت تھی۔

وہ رہا چور۔ خرگوش نے کہا۔چاند بھی گواہی دے رہا ہے اس نے ہمارا سارا اناج کھا لیا ہے۔وہ دیکھو۔

مگر اچانک اسی وقت بادل کا ایک ٹکڑا چاند کے سامنے آگیا اور اس کی کرن گلہری سے ہٹ گئی۔ جب دوبارہ بادل ہٹ گیا اور چاند کی کرن نیچے آئی تو وہ سیدھی خرگوش پر گری۔ خرگوش گھبرا گیا اور جست لگا کر دوسری طرف ہٹ گیا مگر کرن اس کا پیچھا کرتی رہی۔ وہ جدھر بھاگتا چاند کی کرن اس کی طرف یوں لپکتی جیسے اسے پکڑنے کی کوشش کررہی ہو۔

جانور سمجھ گئے کہ خرگوش ہی چور ہے،اور وہ اس کی طرف لپکے، لیکن خرگوش بھاگ کھڑا ہوا۔ چاند برابر اس کا پیچھا کررہا تھا اور جانور اس کے خون کے پیاسے ہوکر اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے، آخر انہوں نے ایک جگہ اسے جا پکڑا اور اسی وقت اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔

جب خرگوش کا کام تمام ہوچکا تو چاند پھر بادل میں چھپ گیا، اور جانور خاموش واپس اپنے غلہ گھروں کی طرف لوٹ آئے، راستہ میں ایک جانور نے ان کو اس گہری خاموشی سے چونکانے کے لیے کہا: اب کے واقعی ہمارا دوست خرگوش وہاں پہنچ گیا، جس کی اسے بڑی خواہش تھی۔

کہاں؟ دوسرے نے پوچھا۔

ڈم ڈم ڈیگا ڈیگا۔پہلے جانور نے جواب دیا، اور اس پر سب ہنس پڑے اور چاند پھر نکل آیا۔

شیئر کریں
109
1