دِلوں کو تسخیر کرنے والےنام ور ناول نگار، افسانہ نویس اور سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ سے آدھی ملاقات
روشنی: مکمل نام؟
مستنصرحسین تارڑ: چودھری مستنصر حسین تارڑ۔
روشنی:گھر والے پیار سے کس نام سے پکارتے ہیں؟
مستنصرحسین تارڑ:بچپن میں میری نانی مجھے اپنی سہولت کے لیے تنصی کے نام سے پکارا کرتی تھیں۔
روشنی:کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
مستنصرحسین تارڑ:یکم مارچ 1939ء کو لاہور میں پیدا ہوا۔
روشنی:آبائی گھر؟
مستنصرحسین تارڑ:میرے آباؤ اجداد کا تعلق دریائے چناب کے کنارے واقع معروف قصبہ جوکالیاں سے ہے۔
روشنی:کس برادری سے تعلق رکھتے ہیں؟
مستنصرحسین تارڑ:جاٹ(تارڑ) برادری سے۔
روشنی:والد اور والدہ کا نام؟
مستنصرحسین تارڑ:والد کا نام چودھری رحمت خان اور والدہ کا نام نواب بیگم ہے۔
روشنی:والد کا پیشہ؟
مستنصرحسین تارڑ:پیشے کے اعتبار سے وہ کاشت کار تھے۔ انھوں نے زرعی نوعیت کے ایک جریدےکاشت کار جدید کا بھی اجراء کیا۔ زراعت سے متعلق کم و بیش بیس پچیس کتابیں بھی تصنیف کیں۔
روشنی:آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟
مستنصرحسین تارڑ:مجھ سمیت تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ میں سب سے بڑا ہوں۔
روشنی:شادی کب ہوئی اور بیگم صاحبہ کا نام؟
مستنصرحسین تارڑ:میری شادی اپریل1970ء میں ہوئی۔ ان کا نام میمونہ بیگم ہے۔
روشنی:آپ کے کتنے بچے ہیں اور ان کے نام؟
مستنصرحسین تارڑ:خالقِ کائنات نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ بڑے بیٹے کا نام سلجوق تارڑ،دوسرے بیٹے کاسمیر تارڑ اور بیٹی کا نام قرۃ العین تارڑہے۔
روشنی:سکول کا نام جہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کی؟
مستنصرحسین تارڑ:رنگ محل مشن ہائی سکول لاہوراور مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور۔
روشنی:بچپن کیسا گزرا؟
مستنصرحسین تارڑ:بچپن میں بہت ہی کھلنڈرا اور شرارتی تھا۔
روشنی:بچپن میں کبھی ڈانٹ پڑی؟
مستنصرحسین تارڑ:میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ میرے والد نے مجھے اپنی پوری زندگی میں ہاتھ تک نہیں لگایا۔وہ بچوں کو زدو کوب کرنے کو معیوب سمجھتے تھے۔ ان کی پوری زندگی میں، میں نے اپنے لیے صرف ایک جملہ سنا کہ توبڑا اُلّو ہے۔
روشنی:بچپن کا کوئی یاد گار واقعہ؟
مستنصرحسین تارڑ:ویسے تو بہت سے واقعات ہیں جنھیں میں نہیں بھلا سکا۔ایک مرتبہ یوں ہوا کہ گلی میں سے گزرنے والے ایک بُردہ فروش نے مجھے مٹھائی کھلائی اور مجھے اپنے شانوں پر بٹھا کر اغوا کر کے ریلوے اسٹیشن کی طرف تیز تیز قدم چل پڑا۔ حُسنِ اتفاق سے ابا جی کے ایک دوست نے مجھے دیکھ لیا۔انھوں نے فوراً معاملہ بھانپ لیا اور بُردہ فروش کو پکڑ کر تھانے لے گئے۔ مجھے بخیر و عافیت میرے گھر پہنچا دیا۔آج بھی سوچتا ہوں کہ اگر اس دن ابا جی کے دوست نہ آئے ہوتے توکیا ہوتا؟
روشنی:فطرتاً طبیعت کیسی ہے؟
مستنصرحسین تارڑ:ہنس مکھ، نرم مزاج ہوں۔ بولتا بہت ہوں۔ فطرت پسند ہوں۔
روشنی:غصہ آتا ہے؟
مستنصرحسین تارڑ: غصہ بہت جلد آتا ہے جب مزاج کے خلاف کوئی بات سننے یا دیکھنے کو ملے۔غصے پر قابو بھی جلدی پا لیتا ہوں۔صاف گو اور صاف دل انسان ہوں۔
روشنی:روزمرہ کی عادات و معمولات کیاہیں؟
مستنصرحسین تارڑ:صبح جلدی اُٹھنے کا عادی ہوں۔روزانہ لمبی سیر کرتا ہوں۔ناشتے کے بعد اخبار کا مطالعہ کرتا ہوں،پھر سو جاتا ہوں۔دوپہرکے کھانے کے بعد قیلولہ کرتاہوں پھر اخبارات کے لیے کالم لکھتا ہوں۔ شام کے بعد کچھ سنجیدہ تخلیقی کام کرتا ہوں۔عموماً رات گیارہ بجے سو جاتا ہوں۔میرا بیشتر وقت مطالعے کے کمرے میں گزرتا ہے۔
روشنی:پسندیدہ پکوان اور مشروبات؟
مستنصرحسین تارڑ:ناشتے میں ڈبل روٹی اور کبھی کبھی پراٹھا پسند ہے۔ میٹھے میں گُڑ کے چاول شوق سے کھاتاہوں۔ مکئی کی روٹی، لسی، سرسوں کا ساگ، چائنیز فوڈ اور پیزا پسند ہے۔ مرغن غذاؤں سے اجتناب برتتا ہوں۔
روشنی: پسندیدہ لباس؟
مستنصرحسین تارڑ: بچپن ہی سے مغربی لباس پہننے کا شوق تھا اور کافی تعداد میں انگریزی ملبوسات موجود ہوتے تھے۔ انگلینڈ سے واپسی پر جب ٹی وی کے لیے صبح کی نشریات کی میزبانی سنبھالی تو ارادتاً مشرقی لباس کا استعمال شروع کر دیا۔ گھر میں عموماً شلوار قمیص میں ہوتا ہوں البتہ مختلف تقاریب اور محافل کے لیے ویسٹ کوٹ کے استعمال کو ترجیح دیتا ہوں۔ اب تو بس یہی خواہش ہے کہ لباس جو بھی ہو آرام دہ ہونا چاہیے۔
روشنی:پسندیدہ ادیب؟
مستنصرحسین تارڑ:روسی ناول نگار ٹالسٹائی، ترکی کے یاشر کمال، فلسطین کے محمود درویش، مصر کے نجیب محفوظ،فرانس کے سارتر، کافکا اور کامیو پسند ہیں۔قرۃ العین حیدر، منٹو، بیدی اور ممتاز مفتی کی نثر کا معترف ہوں۔
روشنی:پسندیدہ شعراء؟
مستنصرحسین تارڑ:اُردو شعراء میں غالب، مجید امجد، محمد اظہار الحق، ظفر اقبال، انور شعور اور ن۔م دانش بہت پسند ہیں۔ فیض کا بھی مداح ہوں۔ علاقائی شعراء میں وارث شاہ، بابا بلھے شاہ اور شاہ حسین بے حد پسندہیں۔
روشنی:پسندیدہ سفر نامہ نگار؟
مستنصرحسین تارڑ:ولیم ڈل رمپل میرے پسندیدہ سفر نامہ نگار ہیں۔ میں نے ان کے تمام سفر نامے پڑھ رکھے ہیں۔ان کی تخلیقی نثر اورر تاریخی شعور سے متاثر ہوں۔
روشنی: پسندیدہ مصور؟
ؑمستنصرحسین تارڑ: عبدالرحمن چغتائی، صادقین، اللہ بخش، سعید اختر،آذر زوبی، بشیر مرزا اور خالد اقبال۔
روشنی:پسندیدہ جریدہ؟
مستنصرحسین تارڑ:بچپن اور لڑکپن میں بچوں کے30 رسالوں کا میں سالانہ خریدار تھا۔ان میں تعلیم و تربیت، پھول، کھلونا، ہمدرد نونہال بچوں کا باغ، بچوں کی دنیا،جگنو وغیرہ شامل تھے اور وہ سبھی رسائل میرے محبوب اور پسندیدہ تھے۔
روشنی:پسندیدہ شخصیت؟
مستنصرحسین تارڑ:حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ میری پسندیدہ شخصیت ہیں۔ان کے بعد میرے والد چودھری رحمت خان تارڑ، عبدالستار ایدھی،انصار برنی اور پروفیسر احمد رفیق پسندیدہ شخصیات میں شامل ہیں۔
روشنی:پڑھنا زیادہ اچھا لگتا ہے یا لکھنا؟
مستنصرحسین تارڑ:مجھے کتابیں پڑھنا زیادہ پسند ہے،اتفاق سے لکھنا شروع کیا تو معمول بن گیا۔
روشنی:آپ کی پہلی ادبی تحریر کون سی تھی اور کب شائع ہوئی؟
مستنصرحسین تارڑ:نوائے وقت کے ایڈیٹرمجید نظامی صاحب کے کہنے پر پہلی بار ایک سفر نامہ تحریر کیا جس کا عنوان لندن سے ماسکو تک تھا۔چار اقساط میں ہفتہ وار قندیل میں 1958ء میں شائع ہوا تھا۔
روشنی:زندگی میں پہلی کتاب کون سی پڑھی؟
مستنصرحسین تارڑ:مجھے یاد نہیں۔۔۔ شاید پریوں اور جنوں کی کہانیاں پڑھی تھیں۔اس دور میں ایسی کہانیاں زیادہ لکھی جاتی تھیں۔
روشنی:پریوں اور جنوں کی داستانیں پڑھ کر کیسا لگتا تھا؟
مستنصرحسین تارڑ:ڈر لگتا تھا…!! میرے خیال میں بچوں کو جنوں اور پریوں کی کہانیوں سے دُور رکھنا چاہیے۔انھیں ایسی کہانیاں نہیں پڑھنی چاہییں تاکہ ان میں ڈر و خوف پیدا نہ ہو۔
روشنی:کوئی ایسا احساس جس سے آپ کو خوف لاحق ہو؟
مستنصرحسین تارڑ:مجھے موت سے خوف آتا ہے، حالانکہ دنیا کی ہر چیز نے فنا ہونا ہے۔ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے،لیکن مجھ پرموت کا یہ خوف ہمیشہ طاری رہتا ہے۔
روشنی:انگلینڈ جانے کا اتفاق کیسے ہوا؟
مستنصرحسین تارڑ:گورنمنٹ کالج لاہور میں انٹرمیڈیٹ میں زیرِتعلیم تھا کہ والد صاحب نے ہوزری ٹیکسٹائل کے ڈپلومے کے حصول کے لیے انگلینڈ روانہ کر دیا،حالانکہ ان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی کہ میں بیرسٹر بنوں،لیکن تعلیم میں عدم دلچسپی کی وجہ سے قیامِ انگلینڈ کا بیشتر حصہ سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے گزرا۔
روشنی:زندگی کاپہلا سفر نامہ کون سا ہے جو کتابی شکل میں شائع ہوا؟
مستنصرحسین تارڑ:1969ء میں ماسکو کی سیاحت کے لیے جب گھر سے نکل کھڑا ہوا تو پہلا سفر نامہ لکھا تھا:نکلے تیری تلاش میں۔ اورخوش قسمتی سے میرا یہ سفر نامہ ماسکو یونیورسٹی میں پچھلے تیس چالیس سالوں سے اردوکے نصاب کے طور پر شامل ہے۔
روشنی:سیاحت کیا ہے آپ کے لیے؟
مستنصرحسین تارڑ:میرے نزدیک سیاحت دیوانگی ہے۔ایک آوارگی ہے جس سے روح سیراب ہوتی ہے۔
روشنی:آپ بیک وقت سیاح اور ادیب ہیں اور آپ نے ادیب ہونے کے ناطے سفر نامے بھی لکھے، اگر آپ ادیب نہ ہوتے تو؟
مستنصرحسین تارڑ:کئی لوگ پوچھتے ہیں،جاننا چاہتے ہیں کہ کیا میں سفر محض اس لیے اختیار کرتا ہوں کہ واپسی پر سفر نامہ لکھ سکوں؟ایسا ہر گز نہیں ہے۔ میں نے زندگی کے بیشتر سفر اُن زمانوں میں بھی کیے جب میں واپسی پر کچھ بھی نہ لکھتا تھا۔ میں ایک ادیب نہ بھی ہوتا تو بھی اتنے ہی سفر کرتا جتنے کہ میں نے کیے۔ میں اپنے جنون، آوارگی اور جذبہ سفر کی رودادقلم بند کرتا ہوں لوگوں کو اپنے سفر میں شریک کر نے کے لیے۔۔۔ اور اس سفر کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے۔۔۔ گویا میں ایک اور سفر پر نکل جاتا ہوں اور یہاں ایک سفرنامہ نگار دوسرے مسافروں سے کہیں زیادہ بخت والا ہو جاتا ہے کہ وہ دوبارہ انہی کیفیتوں، مسرتوں،اذیتوں،مشقتوں اور خوبصورتیوں سے گزرتا ہے۔
روشنی:جب ایک قلم کار کی پہلی کتاب کی اشاعت ہوتی ہے تو اس کی قلبی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ یہ پہلا خوش گوار تجربہ آپ کے لیے کیسا رہا؟
مستنصرحسین تارڑ:یہ تجربہ ایسا ہے جس سے کوئی کوئی ہی گزرتا ہے۔ تصور میں لائیے کہ کوئی رفعت، کوئی مقام نہیں۔۔۔ آپ گم نام ہیں اور ایک کتاب۔۔۔ کاغذ اور سیاہ روشنائی کی مہک والا وجود آپ کے ہاتھوں میں آتا ہے اور اس کے سرورق پر آپ کا نام چھپا ہوا ہے تو یہ کیفیت ہمارے جسم و جاں میں ایسی ہوتی ہے جو نہ پیار سے ہوتی ہے نہ خمار سے۔۔۔ اور اس کے ساتھ خوف کی آمیزش بھی شامل ہوتی ہے کہ نجانے پڑھنے والوں کا ردِعمل کیا ہو گا۔
روشنی:جب آپ نے لکھنا شروع کیا توآپ کی تحریروں میں کھلنڈرا سا نوجوان نظر آتاتھا، پھر صورت حال تبدیل ہونے لگی؟
مستنصر حسین تارڑ: میرے اندر آج بھی ایک حیران ہونے والا بچہ موجود ہے۔جب وہ بڑا ہو گیا تو میں لکھنے کے قابل نہیں رہوں گا۔البتہ زمانے سے جو سیکھا،اس کے اثرات کا میری شخصیت پر مرتب ہونا ایک فطری سی بات ہے۔آپ آہستہ آہستہ بدلتے جاتے ہیں۔
روشنی:ٹیلی ویژن پر آنے کا اتفاق کیسے ہوا؟
مستنصرحسین تارڑ:میں ہمیشہ ایک بات کہتا ہوں کہ میں حادثاتی ادیب ہوں اور حادثاتی میزبان و اداکار ہوں۔میری دلچسپی ان شعبوں میں بالکل نہیں تھی نہ کبھی خیال آیا۔بس مذاق مذاق میں،میں اور میرے ایک دوست نے ٹیلی ویژن پروڈیوسر ایم۔این۔ایچ صاحب سے کہا کہ آپ ہمیں کیوں نہیں کاسٹ کرتے،ہم بھی ہیرو جیسے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ایک ہفتے بعد انھوں نے مجھے اسکرپٹ بھجوا دیا۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔میں نے اُن سے کہا کہ میرا زمیندار جاٹ گھرانے سے تعلق ہے،میں کیسے اسٹیج پر اداکاری کر سکتا ہوں۔ آخر کار ان کی بات ماننا پڑی اور یوں حادثاتی طور پر میں اداکار بھی بن گیا۔
روشنی:ٹیلی ویژن پر آپ اداکار، میزبان اور ڈرامہ نگار رہے۔ تینوں میں سے کس کام نے آپ کو متاثر کیا؟
مستنصرحسین تارڑ:مختلف ادوار میں مختلف چیزیں سیکھنے کو ملیں، اور ہر کام میں ایک الگ ہی دلچسپی اور لطف محسوس ہوا۔
روشنی:لوگ کہتے ہیں کہ لکھنے کے لیے ایک خاص ماحول اور مواقع چاہییں، آپ کا کیا خیال ہے؟
مستنصرحسین تارڑ:میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ لکھنے کے لیے کسی خاص ماحول کی ضرورت پڑے۔ میں یہ کہوں گا کہ اگر تخلیق کی آگ آپ کے اندر موجود ہے تو کہیں بھی اس کی شمع جلا سکتے ہیں۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ ایک پہاڑی مقام ہو، دھند ہو، خاموشی کا راج ہووغیرہ وغیرہ۔ میں نے اپنی بہت اچھی کتابیں گوالمنڈی میں دُکان پر بیٹھ کربھی لکھیں، جہاں بے ہنگم شور اور لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔
روشنی:آپ گزشتہ بیس پچیس سالوں سے ملک کے ٹاپ بیسٹ سیلربک رائٹر ہیں۔ کیسا محسوس ہوتا ہے؟
مستنصرحسین تارڑ:نارمل محسوس ہوتا ہے،اچھا لگتا ہے لیکن میں نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ میری کتابیں بہت زیادہ خریدی اور پڑھی جائیں گی۔
روشنی:لکھنے کے لیے کوئی مقررہ اوقات طے کر رکھے ہیں؟
مستنصرحسین تارڑ:میں ان دنوں ہفتہ واراخبار ِ جہاںمیں کالم لکھتا ہوں اور یہ دن میں کسی بھی وقت لکھ لیتا ہوں، البتہ سفر نامہ اور ناول کے لیے روزانہ رات کو تین چار گھنٹے لکھتاہوں۔
روشنی:آپ بہت کچھ کرتے ہیں،لیکن آپ در حقیقت کیا ہیں؟
مستنصرحسین تارڑ:میں بنیادی طور پر بہت سے بکھیڑوں میں ملوث ہوں،لیکن میں خود کو امراؤ جان ادا کے ایک شعر کی صورت میں بیان کرتا ہوں۔
؎کس کو سنائیں حالِ دل زار اے اداؔ
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی
میں نے بھی آوارگی میں زمانے کی سیر و سیاحت کی، جو دیکھا وہی لکھا،بیان کیا۔لفظ آوارگی کو اُردو میں منفی لیا جاتا ہے مگر زندگی کو سمجھنے کے لیے یہ ایک مثبت چیز ہے۔
روشنی: کیا تخلیق کار لوگ نارمل نہیں ہوتے؟
مستنصرحسین تارڑ: یہ درست ہے کہ تخلیقی لوگ نارمل نہیں ہوتے، وہ عام لوگوں کی طرح نہیں سوچتے،ان کا الگ نظریہ ہوتا ہے۔وہ صبح سے شام تک ملازمت نہیں کر سکتے۔وہ خود کو کسی ایک چیز میں قید نہیں رکھتے۔
روشنی: شہرت نے آپ کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب کیے؟
مستنصرحسین تارڑ: میں نے شہرت کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔میں ہمیشہ اس سے لطف اندوز ہوا ہوں۔جو لوگ شہرت کو سنجیدہ لیتے ہیں، انھیں شہرت کھا جاتی ہے۔
روشنی: یہ بتائیے کہ لکھنے کے لیے کیا کیا لوازمات درکار ہوتے ہیں؟
مستنصرحسین تارڑ: لکھنے کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔ صرف کتابوں کا نہیں چہروں کا بھی، تحمل اور صبر بھی۔۔۔ مجھے کئی لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی بہت کتابیں ہیں۔میں جواب دیتا ہوں کہ ہر گز نہیں۔ بات یہ ہے کہ لکھنے کے علاوہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ میرے سفید پیپرز، میرا لیمپ،ٹیبل اور میرا قلم۔۔۔ یہ چار چیزیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔لکھتے ہوئے استغراق بہت ضروری ہے، بعض اوقات آپ بے خبر ہوتے ہیں کہ لکھتے ہوئے آپ کس دنیا میں جا رہے ہیں۔
روشنی: کیا چیز آپ کی خوشی کا ذریعہ بنتی ہے؟
مستنصرحسین تارڑ: بہت سی چیزیں میری خوشی کی وجہ بنتی ہیں۔ جیسا کہ میں کوئی ناول پڑھ لوں تو اس کی کوئی سطر مجھے دوام بخشے گی۔ خوبصورت مقامات بھی خوشی دیتے ہیں…کبھی کبھی اچھی خوراک بھی مجھے خوش کر دیتی ہے۔
روشنی:دکھ کس بات سے ملتا ہے؟
مستنصر حسین تارڑ: جب میں دکھی لوگوں کو دیکھوں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ انسانیت کے ناطے ہم افسوس کر سکتے ہیں، ہم افسردہ ہو سکتے ہیں، مگر ہم لوگوں کی جانیں نہیں بچا سکتے، انھیں ان کی تکلیف سے نجات نہیں دلا سکتے۔غم اور خوشی زندگی کا حصہ ہیں۔
روشنی:زندگی میں کبھی کسی چیز کا افسوس ہوا؟
مستنصرحسین تارڑ: ہاں مجھے افسوس ہے کہ میں ایک اچھا انسان نہیں بن سکا۔ مکمل خوبیوں سے مزین تو کوئی بھی انسان نہیں۔ مجھ میں بہت کمزوریاں ہیں جیسے کہ میں اپنے غصے پر قابو نہیں پا سکتا۔میرے والد نے مجھے نصیحت کی تھی کہ خلقِ خدا کو کبھی تکلیف اور دکھ مت پہنچانا،لیکن شاید میں نے بہت سے لوگوں کے دل دکھائے،انھیں تکلیف ہوئی ہو گی۔
روشنی:ماشاء اللہ! آپ نے پاکستان بنتے دیکھا اور اس میں جو بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں،اس کے ایک ایک ادوار سے واقف ہیں۔موجودہ پاکستان کی صورتحال کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟
مستنصرحسین تارڑ: میں دعا ہی کروں گا کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کے لیے ترقی کی راہیں ہموار کر دے، اور نئی نسل سے یہی کہوں گا کہ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے، اس کی قدر کریں، اس کی ترقی و خوشحالی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں۔