درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

مریم بتول (رحیم یار خان)

جوں ہی دوسرے پیریڈ کی گھنٹی بجی۔ استاد صاحب کے جانے کے بعد بچے اودھم مچاتے ہوئے سیڑھیوں سے اترنے لگے۔اور اسی افراتفری میں جاوید گر گیا اور اس کے بازو پر چوٹ لگ گئی ۔جاوید نے مدد کے لیے خرم کو آواز دی مگر وہ سنی ان سنی کر کے نکل گیا۔ اگلے دن پیریڈ کے دوران خرم سے اگلی نشست پر بیٹھے ہم جماعت کے بستے سے پنسل غائب تھی ۔اس نے خرم سے پوچھا کہ اگر اضافی پنسل ہے تو دے دو۔ خرم کے پاس اضافی پنسل تھی مگر اس نے نہ دی۔ خرم کی عادات شروع سے ہی ایسی تھیں ۔کسی کی مدد  کرنے کو وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتا تھا۔اتوار کو وہ صحن میں گیند سے کھیل رہا تھا کہ اسے بلی کے بچے کے چلانے کی آواز آئی۔ اس نے دیکھا کہ  پانی سے بھرے  ٹب میں بلی کا بچہ گرا ہوا ہے۔ اس دن شدید سردی  تھی۔ بجائے ٹب سے بلی کے بچے کو نکالنے کے، خرم نے ہنسنا شروع کر دیا اور گھرکے موبائل سے ویڈیو بنانی شروع کردی۔ اتنے میں امی جان آ گئی ۔انہوں نے خرم کو ڈانٹا اور کہا کہ بلی کے بچے کی مدد کرنے کی بجائے ویڈیو بنا رہے ہو ۔انہوں نے بلی کے بچے کو ٹب سے باہر نکالا۔

وقت گزرتا گیا اور خرم بچپن سے جوانی کی دہلیز پر پہنچ چکا تھا۔ مگر اس کی بچپن کی عادات جوں کی توں قائم رہیں۔ اس کی کسی کو مشکل میں دیکھ کر مدد نہ کرنے کی عادت تھی۔ ایک دن خرم اپنے ابو کے ساتھ شہر جا رہا تھا کہ راستے میں ایک تیز رفتار گاڑی ان کی موٹر سائیکل سے ٹکرا گئی۔ وہ بری طرح سے گرے۔ خرم کے ابو گرتے ہی شدید زخمی ہونے کی بنا پر بے ہوش ہو گئے۔ خرم کو بھی بہت سی چوٹیں آئیں مگر وہ اپنے ہوش وحواس میں تھا۔ جائے حادثہ پر تھوڑی بعد ہی لوگوں کا ایک ہجوم اردگرداکٹھا ہو گیا۔ وہ سب لوگ آپس میں چہ مگوئیاں کر رہے تھے، بلکہ ان میں سے چندتو ان لمحات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ بھی کررہے تھے۔ خرم حرکت نہیں کر پا رہا تھا، وہ چاہتا تھا کہ کوئی آگے بڑھے  اور مدد کرےمگر یہاں صورت حال مختلف تھی ۔اسے سب سے زیادہ غصہ ان پر آ رہا تھا جوان کی ویڈیو بنا رہے تھے۔ اسے اپنے ابو جان کی فکر لاحق تھی۔ غالباً اسی وقت ایک موٹرسائیکل آ کر رکی اور اس پر سے ایک نوجوان رستہ دو رستہ دو کہتے ہوئے آگے بڑھا اور خرم کے ابو کی چوٹوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے ان کے زخموں پر کپڑا باندھنا شروع کر دیا تاکہ خون زیادہ نہ  بہہ جائے ۔اتنے میں ایمبولینس بھی پہنچ گئی اور انہیں فوراً ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ وہ اور اس کے ابو بالکل صحت یاب ہو گئے تھے۔ اب خرم کی سوچ بالکل تبدیل ہوچکی تھی۔ وہ ہرضرورت مندکی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ پیارے بچو! جب کوئی دو افراد لڑ رہے ہوں تو ان کی صلح کروانے اور اگر کوئی مصیبت میں ہو تو اس کی مدد کرنے کی بجائے ویڈیو بنانا کہاں کی اخلاقی اقدار ہے۔

شیئر کریں
64
2