اسماء یوسف (بہاول پور)

ایک جنگل میں بندروں کی ٹولی رہتی تھی ۔ اس ٹولی میں دو بچے بھی تھے، جو اتنے شرارتی تھے کہ ان کے ماں باپ بھی اُن سے بہت زیادہ تنگ آگئے تھے۔ اسی جنگل میں ایک ننھازرافہ بھی رہتا تھا ،وہ بہت ہی سیدھا سادا اور بھولا بھالا تھا۔ ایک مرتبہ چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی ٹولی درختوں سے پتے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کرکھانے میں مگن تھی۔ دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے زرافے کو دیکھا تو انہیں حیرت سی ہونے لگی کیونکہ ان  بندروں نے کبھی ایسا جانور نہیں دیکھا تھا۔ بندرکے ایک بچے نے کہا:ارے !دیکھوتو کتنا عجیب وغریب جانور ہے۔ آؤ اسے چھیڑ تے اور ستاتے ہیں۔ دونوں بندر کو دتے پھلانگتے اس درخت پر پہنچ گئے جس کے نیچے کھڑے ہوکر ننھا زرافہ گھاس کھا رہا تھا۔ اُس درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر دونوں نے زرافے سے کہا: اے لمبو!تیرا کیا نام ہے؟ زرافے نے بڑی نرمی سے سوال کا جواب دیا اور دوستی کرنے کی دعوت دی۔

دونوں  شرارتی بندر  کھلکھلا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ  تجھ سے ہم کیوں دوستی کرنے لگے ؟ کتنا بدصورت ہے تو، مینار جیسی گردن اور سیڑھی جیسے پیر، ہمیں ایسے بے ڈھنگے جانور سے کوئی دوستی  نہیں کرنی۔ اتنا کہہ کر دونوں بندر زرافے کو چڑانے لگے ۔ اتنا ہی نہیں  بلکہ ایک بندر نے درخت سے ایک پکا ہوا پھل توڑ کر زرافے پرپھینک مارا ۔ پھل زرافے کے منہ پرلگ کر پھوٹ گیا اور اس کا رس اور گودا اس کے چہرے پر پھیل گیا ۔ یہ دیکھ کر دونوں بندر قہقہہ مارکر ہنسنے لگے اور کودتے پھلانگتے جنگل میں دوربھاگ گئے ۔ زرافہ بے چارہ روہانساہو کررہ گیا اور منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا ۔

ایک دن دونوں شرارتی بندروں نے یہ طے کیا کہ وہ جنگل میں دورتک اکیلے گھومنے اور سیر سپاٹاکرنے کے لیے چلیں گے، کیوں کہ وہ لوگ اپنے ماں باپ کی ڈانٹ پھٹکار سے بےحد تنگ آچکے تھے اور اُن سے آزادی چاہتے تھے ۔ صبح صبح جب باقی بندر سورہے تھے ۔ یہ دونوں شرارتی بندر چپکے سے نکل پڑے ۔ کچھ ہی وقت میں وہ بندروں کی ٹولی سے بہت دورنکل گئے ۔ جب انہیں زور کی بھوک لگی تو ان  دونوں نے پیڑوں کی پتیاں اور پھل فروٹ کھاکر اپنے پیٹ کی آگ بجھائی ۔ انہیں اس طرح گھومنے پھرنے اور موج مستی کرنے میں بڑا مز ہ آرہاتھا ۔دوپہر ہوچلی تھی لہذا  وہ دونوں گرمی سے بچنے کے لیے ایک درخت کی ہری بھری شاخوں پر جا کر بیٹھ گئے ۔  اس  درخت کے نیچے ایک شیر آرام کررہاتھا اور پیڑ کے آس پاس ایک بڑا ہرا بھرا میدان تھا اورمیدان کے ساتھ ہی ایک ندی بہہ رہی تھی ۔ شرارتی بندر اس سہانے منظر میں ایسا کھوئے کہ انہیں  اس بات کا احساس ہی نہ ہوا کہ یہاں ایک شیر بھی موجود ہے،  جب اچانک ان کی  نیچے شیر پر  نظر پڑی  تو وہ بری طرح ڈرگئے، لیکن کچھ ہی دیر بعد انہیں یہ محسوس ہوا کہ ہم تو درخت کے اوپر محفوظ ہیں ۔ چونکہ ان میں شرارت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ اس لیے انھیں یہاں بھی شرارت سوجھنے لگی اور ان دونوں شرارتی بندروں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور درخت کا ایک پھل توڑ کر نیچے گرادیا ۔ پھل سیدھا شیر کی ناک پر گرا، شیر کو بہت درد ہوا ۔ اس نے غصے سے دہاڑتے ہوئے اِدھراُدھر دیکھا ،اچانک اس کی نظر اوپر موجودبندروں پر پڑی   جوکھی کھی کرکے ہنس رہے تھے۔  شیرآپے سے باہر ہورہاتھا۔ اس نے گرج دار آواز میں دہاڑتے ہوئے کہا: کیا تمہیں معلوم نہیں میں اس جنگل کا بادشاہ ہوں،   فوراً  درخت سے نیچے اتر کر مجھ سے معافی مانگو، ورنہ میں تم دونوں کو کھا کر اس گستاخی کی سزادوں گا ۔ بندروں کو پھر ہنسی آگئی ، انہیں یقین تھا  کہ ہم درخت پر محفوظ ہیں ۔ شیر ان کو اس طرح دوبارہ ہنستے دیکھ کر غصے میں آگ بگولہ ہو گیا اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر سپرنگ کی طرح تیزی سے اچھلا ۔

 ان دونوں شرارتی بندروں نے دیکھا کہ شیرکا جبڑا کھلا ہوا ہے اور اس کے تیز نوکیلے دانت ان کی طرف ہیں ،اور وہ بڑی تیزی سے اچھلتے ہوئے بالکل ان کے قریب آگیا ۔ دونوں بندروں کے توہوش ہی اڑگئے اور ان کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی ۔ ڈر کے مارے  وہ دونوں  ایک دوسرے سے بُری طرح لپٹ گئے۔  شیر نے چھلانگ تو بہت اچھی لگائی تھی لیکن وہ وہاں تک نہیں پہنچ سکا جس شاخ پر وہ دونوں بندر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیر نے دوبارہ زبردست چھلانگ لگائی ۔ بندروں کی حالت بڑی پتلی ہوگئی تھی ۔ دوڈرکے مارے چیخنے چلانے لگے لیکن وہاں ان کی پکار سننے والا کوئی بھی نہ تھا ۔ وہ تو اپنی ٹولی اور ماں باپ کےبغیر بھاگ کر آئے تھے۔ اس درخت کے آس پاس کوئی دوسرا درخت بھی نہ تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر اس پر چلے جاتے ، اور نہ ہی اس درخت پر کہ جس پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے ،اونچائی کی طرف کوئی مضبوط شاخ تھی جس پر جا کر وہ بیٹھ سکتے۔

  شرارتی اور نافرمان بندر بری طرح پھنس گئے تھے۔ شیر کی تیز دھاڑاور غراہٹ سے ان کے کانوں کے پردے پھٹ رہے تھے۔ ان کا کلیجا بھی کانپ رہا تھا اور ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے تھے ۔ وہ اس حالت میں تھے کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ یکایک ان کے کانوں میں دھیمے سی آواز آئی کہ گھبراؤ مت ،  میں تم دونوں کو یہاں سے نکال کرلے جاؤں گا،چپکے سے میری گردن کے سہارے میری بیٹھ پر اتر آؤ۔ وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ٹھیک اوپر درخت کے پتوں کے درمیان سے اسی زرافے کا سرنکلا ہواتھا جس کا انہوں نے کچھ دن پہلے خوب مذاق اڑایا تھا۔ بندروں نے ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھا کہ آج وہی زرافہ  ہماری جان بچانے کے لیے تیار ہے ۔

ننھے  زرافے نے بھی بندروں کی  اس دن کی شرارتوں اور مذاق کا ذرا بھی خیال نہ تھا۔ دونوں بندروں نے  شرمندگی سے  اپنی نگاہیں نیچے کر لیں۔  زرافے  نے کہا: میرے دوستو!جلدی کرو ،اگر شیر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ ہم تینوں کو کھا جائے گا ۔ بندراب بلا جھجک زرافے کی گردن پر پھسلتے ہوئے اس کی  پیٹھ پر سوار ہوگئے اوروہ انہیں لیے تیزی سے وہاں سے کھسک گیا ۔ شیر کو پہلے تو پتا نہ چل سکا کہ ماجرا کیا ہے لیکں جب اس نے زرافے  کی پیٹھ پر سوار ہو کر دونوں بندروں کو فرار ہوتے دیکھا تو اس نے دہاڑتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔ بندورں نے  اپنا تعاقب کرتے ہوئے شیر کو دیکھا تو ان کی جان نکلنے لگی اوروہ بری طرح چیخنے چلانے لگے۔ شیر پوری قوت کے ساتھ بندروں کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگا رہاتھا ۔

زرافے  نے بندروں کوسمجھایا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں، تم دونوں بالکل محفوظ ہو، شیر مجھے کبھی نہیں پکڑ سکتا اور سچ مچ ہوا بھی ایسےہی کہ اپنی تیز  رفتاری  سے  زرافے نے شیر کو کافی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ایک محفوظ جگہ پر پہنچ کر بندرچھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ سے نیچے اتر گئے ۔ تب زرافے نے ان دونوں نے کہا کہ اس دن تم دونوں نے میری لمبی گردن اور ٹانگوں کا بہت مذاق اڑایا تھا نا، آج دکھ لیا نا کہ انھیں کی وجہ سے تم لوگوں کی جان بچ گئی ، لمبی گردن کی وجہ سے ہی میں تم دونوں کو دور سے دیکھ سکا اور تمہیں درخت سے  اتارسکا ،اور انہی لمبی ٹانگوں کی وجہ سے تیز دوڑ سکا۔زرافے کی بات  پر  بندر کیا کہہ سکتے تھے، دونوں  نےشرم کے مارے اپنی اپنی گردنیں جھکالیں اور خاموش رہے ۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر  زرافے نے  مسکراتے ہوئے کہا کہ    چلو چھوڑوان باتوں کو ، پچھلے قصے کو بھول جاؤ،  اب آج سے تم میرے دوست بن کر میرے ساتھ روزانہ کھیلوگے ناں۔

 زرافے کی اعلیٰ ظرفی ، سادگی اور محبت دیکھ  کر دونوں شرارتی بندروں کی تو بولتی ہی بند ہوگئی۔ انہیں اپنی حرکتوں پر غصہ آنے لگا کہ ان لوگوں نے اتنے اچھے اور پیارے زرافے کو کیوں ستایا تھا  اور اس کا مذاق کیوں اڑایا تھا۔ ان دونوں نے اسی وقت زرافے سے اپنے  کیے کی معافی مانگی ۔ زرافے نے  کہا: دوستو! معافی کی کوئی بات نہیں، میرے دل میں تمہارے لیے کوئی کدورت نہیں۔  زرافے کے  اچھے  سلوک کو  دیکھ ان لوگوں نے تہیہ کرلیا کہ  وہ آج کے بعد کبھی شرارت نہیں کریں گے ۔

دونوں بندروں نے زرافے  سے کہاکہ ہم نے تمہیں جان بوجھ کر بہت ستایا تھا ، آج سے ہم کسی کو بھی نہیں ستائیں گے ، اور رہی تمہاری بات،  تو آج سے تم ہمارے سب سے اچھے دوست ہوکیونکہ دوست وہی سچا ہے جو سکھ سے زیادہ دکھ میں کام آئے اور آج تم نے دکھ میں ہماراساتھ دے کر یہ ثابت کردیا کہ تم ہمارے سچے دوست ہو۔ دونوں بندروں کی یہ بات سن کر زرافہ خوشی سے ناچنے لگا۔

شیئر کریں
64