محمد عدیل (خانیوال)
میں ایک لیٹر بکس ہوں۔ آج کے بچے مجھے کوڑا دان یا شاید دیوار پر لٹکا ہوا ایک فضول سا ڈبہ سمجھتے ہیں۔ کچھ بچے مجھے اس حیرت سے دیکھتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں مجھ میں آگ جلائی جاتی ہوگی۔خیر اس میں ان کا بھی قصور نہیں ہے۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ میں کون ہوں۔چلیں آپ کو اپنے بارے میں کچھ بتاتا ہوں۔1848ء میں سب سے پہلے مجھے روس میں دیکھا گیا۔ لوگ میرے پاس آتے، رشک سے میرے اندر خط ڈالتے۔ اپنے قریبی عزیزوں کو پیغام بھیجتے۔ فوجی جو جنگ لڑ رہے ہوتے وہ اپنے گھر خط لکھتے۔سکول کے بچوں کو میرے آداب کے بارے میں پڑھایا جاتا۔ میرا ذکر کتب کی زینت ہوتا۔ ریلوے اسٹیشن، لاری اڈہ اوردیگر پر ہجوم جگہیں میرا مسکن ہوتیں۔روزانہ ایک مخصوص وقت میں ڈاکیا آتا، وہ مخصوص چابی لگا کر مجھے کھولتا۔ میرے اندر موجود تمام چٹھیوں کو انتہائی ذمہ داری سے اپنے خاکی تھیلے میں ڈالتا اورڈاک خانہ میں چلا جاتا۔ ڈاک خانہ میں میرے اندر سے نکالے گئے خطوط کو ڈاک خانہ کی مخصوص مہریں لگا کران کی چھانٹی کی جاتی اور پھر انہیں مختلف شہروں میں روانہ کر دیا جاتا۔چونکہ معاشرے میں میرا خاص مقام تھا ، اس لیے میرےاندر جو بھی خط ڈالا جاتا، وہ بہت سوچ سمجھ کراور ادب آداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر ڈالا جاتا ،کیوں کہ میں اور میرا دوست ڈاکیا کسی قیمت پر وہ خط واپس نہیں کرتے تھے۔ اساتذہ بچوں کو خط لکھنے کے طریقے، آداب اور عمدہ لکھائی کے قرینے سکھاتے۔ہر خط میں محبت، امن اور بھائی چارے کا پیغام ہوتا۔ ہر خط میں شب و روز بیان ہوتے۔ آج بھی اگر آپ کے ساتھ بزرگ ہیں تو وہ مجھ سے میرے اندر ڈالے گئے خط کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔جس گلی میں ڈاکیا جاتا تو لوگ گلی میں نکل کر دیکھتے کہیں کسی اپنے عزیز کا خط تو نہیں آیا ۔ مجھ پر گانے اور اشعارلکھے جاتے۔ محفلوں میں میرا ذکر ہوتا۔جب بھی بھائی یا دوست ایک دوسرے سے جدا ہوتے تو کہتے خط ضرور لکھیے گا ۔وقت گزرتا رہا۔ پہلے ٹیلی فون آیا میری قدر کھوئی، مگر اتنی بھی نہیں، پھر موبائل فون کیا آیا کہ میں ماضی کا حصہ بن گیا۔