استاد کی عظمت اور اردو شاعری
اقوام عالم کے عروج و زوال کی داستانوں کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہیں جو تعلیم و تدریس کے شعبے کو بنیادی اہمیت دیتی ہیں۔ تعلیم و تعلم کے پورے عمل میں استاد ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ مہذب معاشرےکے تمام طبقات اپنے اساتذہ کو مثالی عزت و تکریم دیتے ہیں۔ دنیا کی تمام اہم زبانوں کی طرح اردو نظم و نثر نے بھی اساتذہ کی اہمیت اور فضیلت کو بخوبی اجاگر کیا ہے۔ اردو شعراء کی طرف سے اساتذہ کو پیش کیے گئے خراج عقیدت کے چند نمونے درج ذیل ہیں۔
تاج رکھا ہے زمانے نے سروں پر ان کے
تھے جو استاد کے جوتوں کو اٹھانے والے
(نعیم افروز)
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
(الطاف حسین حالی)
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
(چکبست برج نرائن)
وہی شاگرد پھر ہوجاتے ہیں استاد اے جوہر
جو اپنے جان و دل سے خدمت استاد کرتے ہیں
(لالا مادھو رام جوہر)
محروم ہوں میں خدمات استاد سے منیر
کلکتہ مجھ کو گور سے بھی تنگ ہو گیا
(منیر شکوہ آبادی)
شیخ سعدی اور ان کا بیٹا
شیخ سعدی اور ان کا بیٹا تہجد پڑھ رہے تھے ،تہجد کے بعد ان کے بیٹے نے کہا کہ پیارےبابا جان! سب سو رہے ہیں اور ہم عبادت کر رہے ہیں، شیخ سعدی نے جواب میں اپنے بیٹے کو کتنی خوبصورت بات کہی کہ اگر دوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنی تھی تو بہتر تھا کہ تو بھی سویا رہتا۔
بھارت کی ہٹ دھرمی
ویسے تو بھار ت نے پاکستان پر بے شمار ظلم کیے ہیں لیکن پاکستان نے بھی اسے ہر دفعہ منہ توڑ جواب دیا۔ بھارت نے مظلوم کشمیریوں پر ظلم کی انتہاکر دی ہے ۔ انہیں گھروں سے بے گھر کیا جارہاہے۔ ان پر ایسے ہتھیاراستعمال ہورہے ہیں جو جنگلی جانوروں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اُن کے بچے جب سکول کے لیے آتے ہیں تو اُن پر طرح طرح کے ظلم و ستم کیے جاتے ہیں۔ اکثر بھارتی فوجی اُن معصوم بچوں کو اغواء کر رہے ہیں۔ اُن کی عزتیں نیلام ہو رہی ہیں۔ الغرض، انہیں ہر ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے انہی کی حفاظت کرتے ہوئے ہمارے کئی فوجی شہید ہو گئے۔پہلے نمبر پہ ہم مسلمان ہیں، مسلمان ہونے کی وجہ سے اور دوسرے نمبر پہ ہم پاکستانی ہیں۔ ان دونوں رشتوں کی وجہ سے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے ان کشمیری بھائیوں کو جتنا ہو سکتا ہے انہیں اِ س ظلم سے نجات دلائیں اور انہیں جینے کے پورے حقوق دیے جائیں۔ پاکستان اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور ہمارے اوپر بھی فرض ہے کہ جتنا ہو سکے ہم کشمیریوں کی بھر پور حمایت کریں ۔
زندگی کاالمیہ
زندگی کا المیہ یہ نہیں ہے کہ یہ بہت جلد ختم ہو جاتی ہے بلکہ زندگی کا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم جینا ہی دیر سے سیکھتے ہیں۔
اپنے اعصاب پہ تلخی نہ اتاری جائے
زندگی ایک ہے بھر پور گزاری جائے
بچے جنت کے پھول
بچے جنت کے پھول ہیں۔ یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے متن کے اعتبار سے جتنی خوبصورت ہے،معنی کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ اہم ہے۔ جس طرح رنگ برنگے، خوشبو اور نرم و نازک پھولوں کی آبیاری کے لیے مناسب غذا اور تہذیب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح بچوں کی نشوونما کے لیے بھی اچھی تعلیم و تربیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ ہر بچہ نیک اور پاکیزہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ،نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ بچوں تک مثبت ،تعمیری اور صحت مند اقدار حیات کو پہچاننے اور ان کی ذہنی سطح کے لحا ظ سے انہیں مخاطب کرنے کی ذمہ داری محض سکولوں کے اساتذہ کی ہی نہیں ہے ، بلکہ اس میں والدین، رشتہ دار اور معاشرے کے افراد بھی یکساں طور پر شریک ہیں۔ کیوں کہ محض کہانیوں کے ذریعے بچوں تک اپنا پیغام پہنچا کر ہمارا فرض پورا نہیں ہو جاتا ۔ یہی سبب ہے کہ روایتی طور پر کہانی کے ساتھ ساتھ کہانی گو کہیں دادی اماں کی شکل میں ،کہیں نانی اماں کی شکل میں اور کبھی بہن کی شکل میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ آج بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ اساتذہ اور والدین کہانیوں کو بچوں کے ساتھ گفتگو کا موضوع بنا ئیں تاکہ ان کے ذہنوں میں نہ صرف فکر کے بیج پڑیں بلکہ فکر کی نموو اور ترقی میں بھی آسانیاں پیدا ہو سکیں۔
انجام پر نظر رکھنا
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کا گھاس پھونس کا بنا ہوا جھونپڑا تھا۔وہ اس میں آتش بازی کا سامان تیار کر رہا تھا ۔ایک عقل مند شخص کا وہاں سے گزر ہوا۔اس نے اس کو مشورہ دیا کہ تیراجھونپڑا گھاس پھونس کا ہے تیرے لیے یہ کام مناسب نہیں ہے۔جب تک تجھے اس بات کا یقین نہ ہو کہ تو اس بارے میں جانتا ہے، جس کے متعلق تو گفتگو کرنے جارہا ہے وہ بات نہ کر اور جس کے متعلق تو جانتا ہے کہ اس کا جواب تجھے نہیں ملے گا وہ بات بھی نہ کہہ۔سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس میں بیان کرتے ہیں کوئی بھی قول و فعل اختیار کرنے سے قبل انجام پر نظر رکھو اور بلا سوچے سمجھے کہہ دینا یا کر لینا جس سےبعد میں پچھتانا پڑے داناؤں کا شیوا نہیں ہے۔
آداب معاشرت
معاشرے میں سب کو ہمیشہ راست بازی سے کام لینا چاہیے۔ دروغ گوئی سے احتراز کیا جائے۔ ہر حال میں سچی بات کہی جائے۔ سچ اور جھوٹ کی آمیزش نہ کی جائے۔ فضول اور بے معنی گفتگو نہ کی جائے۔ بولتے وقت بہترین الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ نرمی سے بات کی جائے۔ چیخ چیخ کر بولنا مناسب نہیں۔ گالم گلوچ مہذب لوگوں کا شیوا نہیں ۔ اخلاق سے گری ہوئی گفتگو سے پرہیز کیا جائے۔ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس سے کسی کی دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو۔ تحقیق کے بغیر کوئی بات نہ کی جائے۔
علم کے فائدے
علم کے لفظی معنی ہیں جاننا ،پرکھنا اورپہچاننا۔انسان کے زمین پر بسنے سے ہی علم کی ابتدا ہو چکی تھی، پھر جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا اس کے علم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے یعنی بہترین سمجھ بوجھ والا۔انسان جنگلی اور وحشی زندگی سے نکلا اور اس نے خوبصورت زندگی تلاش کر لی، جس میں آج ہر قسم کی سہولیات اور آسائشات موجود ہیں۔آج علم کی ترقی دیکھیے کہ انسان چاند پر جا پہنچا ہے۔ہواؤں میں سفر کر رہا ہے اور سمندر کی تہوں تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔میڈیکل کے شعبے اتنی جدیدیت آچکی ہے کہ انسانی اعضاء تک کی پیوند کاری کی جا رہی ہے اور مصنوعی اعضاء کامیابی سے لگا کر انسان کو زندگی گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔جہاں انسان نے علم کے بل بوتے پر اتنا بے انتہا ترقی کی ہے، وہاں وہ بہت کچھ کھو بھی چکا ہے، اور وہ یہ کہ اس ترقی نے انسان کو اتنا مصروف کر دیا ہےکہ وہ اپنے مالک حقیقی سے کچھ دور ی اختیار کر گیا ۔دولت و مادیت پرستی کی طرف اس کا رجحان بڑھ گیا۔ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے وہ ایک دوسرے کی جان کا دشمن بن گیا۔مگر پھر بھی علم کی حقیقت مسلمہ ہے۔آج بھی علم اپنے مکمل جوبن کے ساتھ مزید ترقی کے لیے راہیں کھولے کھڑا ہے۔صرف انسانی جستجو کی مزید انتظار ہے۔اللہ ہمیں مزید علم حاصل کرنے اور مالک حقیقی کو پانے کی قوت عطا کرے۔آمین
عظیم سائنس دان، عظیم دریافتیں
نامور سائنس دان جارج اسٹیفن ایک رات اکیلا اپنے کمرے میں چائےکے لیے پانی گرم کر رہا تھا ۔اتفاقاً پانی ضرورت سے زیادہ گرم ہو گیا اور کیتلی کا ڈھکن بھاپ کے زور سے تھرتھرانے اور اچھلنے لگا۔ پہلے پہل تو وہ گھبرا گیا لیکن رفتہ رفتہ یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی کہ یہ بھاپ کی طاقت کا کر شمہ ہے ، بس پھر کیا تھا اس نے اسی بھاپ کی طاقت سے ایک طرف زمینی جہاز اور دوسری طرف خشکی پر مشینیں چلا دیں ۔ جارج اسٹیفن نے اپنی انجینئرنگ کے کمال سے 1815ءمیں نہ صرف انجن بنا کر دیا بلکہ 1825ء میں میلوں تک ریل بھی دوڑادی ۔
امریکاکا تھا میل ایڈلین دنیا کا سب سے بڑا موجد مانا جاتا ہے اس نے بجلی اور بجلی کے متعلق بہت سی ایجاد کی تھیں اور بجلی کے ویو کو قابو کرنے کا اس کے ذہن میں اتفاق پیدا ہوا تھا ۔ ٹرو کو دیکھ کر ساونڈ بکس اور گراموفون کی ایجاد کا خیال بھی اسی کو آیا ۔ ٹرواس جھلی منڈھے ہوئےکھلونے کو کہتے ہیں جس میں تانت باندھ کر دوسرا کنڈے پر گھمانے سے مینڈک کے ٹرانے کی سی آواز نکلتی ہے بعد میں لاوڈ اسپیکر اسی اصول کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ۔
انگلستان کا ایک سائنس دان سر آئزک نیوٹن اپنے باغیچے میں بیٹھا ہوا تھا کہ سیب کے درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر زمین پر آ گرا ، وہ سوچنے لگا کہ آ خر یہ سیب درخت سے ٹوٹ کر زمین پر کیوں گرا ، آسمان پر اِدھر اُدھر کیوں نہ چلا گیا ؟ ضرور زمین میں کشش زیادہ ہے ۔اسی سوچ کے نتیجے میں اس نے کشش ثقل کا قانون دریافت کیا۔
انسان ایک مشین
آج کے مشینی دور میں انسان بھی ایک مشین کی مانند ہے۔ اگر مشین خراب ہو جائے تو وہ اپنا صحیح کام سرانجام نہیں دے پاتی۔ اسی طرح اگر انسان کا ایک عضو کام کرنا چھوڑ دے تو انسان بیمار پڑ جاتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالٰی نے بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں۔ اگر کسی نعمت سے محروم رکھا بھی ہےتو مایوس مت ہوں۔ اس میں بھی اس کی کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ انسان کا دماغ سب سے اہم عضو ہے۔ آج کل کی غذا مضر صحت ہے۔ کوئی شے بھی خالص نہیں۔ انسان کی زندگی کی قیمت تب ہوتی ہے جب اس کی روح اس کے جسم سے پرواز کر جاتی ہے۔ انسان کی زندگی مشینی بن چکی ہے۔بہت سی بیماریاں جنہوں نے آج کل جنم لیا ہے وہ انسان کو تباہ کر رہی ہیں جیسے ڈینگی وغیرہ۔اللہ تعا لٰی ہم سب کو ان بیماریوں سےمحفوظ رکھے۔ آمین
ارشاد نبویﷺ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ کسی کے بارے میں بدگمانی نہ کرو کیونکہ یہ بدترین جھوٹ ہے، کسی کے احوال کی ٹوہ میں نہ لگے رہو یعنی اس کے گھریلو معاملات مت تلاش کرو، کسی کے سودے پر سودا مت کرو، کسی سے حسد نہ کرو، کسی سے بغض نہ رکھو، کسی کی غیبت نہ کرو، تم سب خدا کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔(بخاری و مسلم)
استاد کا احترام
استادکے ادب اور احترام کو طالب علم کے لیے کامیابی کی پہلی سیڑھی بتایا گیاہے ۔ استاد اس ہستی کا نام ہے جواپنے شاگردوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرتا ہے اور ان کی اخلاقی تربیت کر کے معاشرےمیں ایک اعلیٰ مقام تک پہنچا تا ہے۔ استاد طلبہ کی شخصیت سازی اور کردار سازی میں اہم کردارادا کرتا ہے۔استاد بادشاہ تو نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بنانے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ استاد علم کے حصول کا برا ہ راست ذریعہ ہے، ا س لیے استاد کی تکریم کا حکم دیا گیاہے۔تاریخ کی کتابوں میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ان کے دربار میں جب کسی عالم دین کی تشریف آوری ہوتی تو ہارون الرشید ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ ہارون الرشید کے اس فعل پر ان کے در باریوں نے کہا کہ آپ کے اس فعل سے سلطنت کا رعب جاتارہے گا جس پر ہارو ن الرشید نے انہیں جواب دیا کہ اگرعلمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو چلا جائے ۔ مشہور فلسفی، مفکر اورماہر منطق ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ استاد کا بے حد احترام کرتا تھا ، کسی نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو سکندر نے جواب دیا :میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لے کر آیا، جب کہ میرا استا د ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ آج کل تعلیمی اداروں میں تعلیم کی صرف رسم رہ گئی ہے اور طلبہ کی تربیت کا کوئی سلسلہ باقی نہیں رہا۔تعلیمی اداروں کی اصلاح وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ اساتذہ کو اپنی ذات میں وہی روح پیدا کرنی ہوگی جو گزشتہ زمانے میں ہمارے بزرگوں میں تھی ۔ اسی طرح طلبہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معاشرے میں بلند مقام و مرتبہ اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرنا ہوگا۔
جغرا فیائی اصطلا حات
٭ زمین کے سب سے اوپر اور کم موٹائی والا کر ہ قشرالارض کہلاتا ہے۔
٭ زمین میں موجود بڑی دراڑوں یا شگا فوں کو فالٹ کہتے ہیں۔
٭ زمین کی سطح پر پیدا ہونے والی تھرتھراہٹ یا ارتعا ش کو زلزلہ کہا جاتا ہے۔
٭ زلزلے کی شدت کی پیمائش کا آلہ سیسمو گراف کہلاتا ہے۔
٭ ہوا کا دباؤ ناپنے کا آلہ بیرو میٹر کہلاتا ہے۔
ہمارے کان کیسے کام کرتے ہیں
پیارے بچو! یہ تو آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار بنایا ہے ، انسان کو میسر قدرت الہٰی کی انمول نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت کا ن ہیں، کانوں کے بغیر ہم سن نہیں سکتے، یہ آواز کے ارتعاش کو وصول کرکے دماغ کے حس سماعت تک پہنچانے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ آواز کی لہریں کان کے بیرونی حصہ میں داخل ہوکر پردہ سے ٹکراتی ہیں پھریہ کان میں وسطی حصے میں موجود ہڈیوں سے باری باری ٹکراتی ہے۔ اس طرح آواز کی لہریں سماعت کے عفلو، گرہ سے ٹکراتی ہوتی دماغ تک پہنچتی ہیں ۔ کان کے پردے کو ہمارے لیے آواز کو سمجھنے کے لیے ہائیڈروجن کے جوہرکے قطرے سے بھی کم حرکت کرنی پڑتی ہے۔ کان آواز کے حسی عفلو کے طورپر کام کرنے کے ساتھ ساتھ توازن اور روفع برقراررکھنے میں بھی اہم ترین کردار اداکرتے ہوئے جسم کو متوازن اور حرکت صحیح حالت میں رکھتے ہیں۔ کان جسم کی تین سب سے چھوٹی ہڈیوں کا گھر ہے ، یہ چھوٹی ہڈیاں کان کے درمیانی حصے میں پردے اور اندرونی کا ن کے درمیان موجود ہیں اور ان کا کام آواز کے ارتعاش کو ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کرناہے ۔ یاد رکھیں کہ کان کی صفائی کے عمل سے کان کے پردے اور اندرونی حصے کی چھوٹی ہڈیوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔
انسانی جسم کی حیرت انگیز معلومات
٭ سرکے اوپر بال اس وجہ سے ہیں کہ ان کے ذریعے سے دماغ تک تیل یاروغن پہنچ جائے۔
٭ پیشانی بالوں سے اس لیے خالی ہے کہ اس جگہ سے آنکھوں میں روشنی پہنچتی رہے اور اس پر خطوط یا شکنیں اس لیے ہیں کہ سر سے پسینہ گرے تو آنکھوں میں نہ جائے ۔
٭ناک دونوں آنکھوں کے درمیان اس لیے ہے کہ ہر طرف کی روشنی تقسیم ہوکر برابرددنوں آنکھوں تک پہنچ سکے۔
٭ ناک کے سوراخ اس لیے نیچے ہیں کہ ہرقسم کے فضلات آسانی سے نکل جائیں اور انسان ہر قسم کی بو آسانی سے سونگھ سکے۔
٭ ہونٹ اس لیے منہ پر بنائے گئے ہیں کہ جو رطوبتیں دماغ سے منہ میں آئیں وہ ہونٹوں کی مدد سے صاف کردے۔
٭ سامنے والے دانت اس لیے تیز ہوتے ہیں کہ کسی بھی چیز کا کاٹنا آسان ہو اورداڑھیں اس لیے چوڑی بنائی گئی ہیں کہ غذا کا چبانا اورپینا آسان ہوجائے۔
٭دونوں ہتھیلیوں پربا ل اس لیے نہیں ہیں کہ کسی چیز کو چھونے سے اس کی خاصیت معلو م ہو سکے۔
٭ ناخن میں جان اس لیے نہیں ہے کہ اس کا بڑھنا خرابی کا باعث بنتاہے ، اگر جان ہوتی تواس کو کاٹنا مشکل ہوجاتا۔
٭ پھیپھڑوں کے دوحصے ہیں، قلب ان کے درمیان ہے ،پھیپھڑے بطور پنکھے اس کو ہوادیتے ہیں۔
٭ جگر اس لیے ہے کہ ہوا کو پورے طورپر معدے کے اوپر سے گزارپائے اورمعدہ اپنی حرارت اورخاص وزن سے غذا کو ہضم کرسکے۔
٭ اگر پاؤں الٹے ہوتے تو انسان چلتے ہوئے گرجاتا اور چلنا انتہائی مشکل ہوجاتا۔
٭پاؤں کا درمیان میں خالی ہونا توازن میں بہتری کی علامت ہے اگرانسان گرے تو پنجوں کے بل سنبھل سکتاہے۔
دلچسپ معلومات
٭ کاکروچ کے خون کارنگ سفید ہے۔
٭کٹ فش کے تین دل ہوتے ہیں۔
٭ ہیمنگ برڈ وہ واحدپرندہ ہے جو جتنی رفتار سے سیدھا اڑتا ہے اتنی ہی رفتار سے پیچھے کی طرف بھی اڑتا ہے۔
٭کتا وہ جانور ہے جس کی زبان پر پسینہ آتا ہے۔
٭مچھرکے 44دانت ہوتے ہیں۔
٭شہد کی مکھی کی پانچ آنکھیں ہوتی ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں
٭قوس قزح میں عموماًسفید روشنی کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں۔
٭گرم ممالک میں گھروں کوہلکے رنگ سے پینٹ کیا جاتاہے۔ پینٹ کا ہلکا رنگ حرارت کی کم مقدار جذب کرتا ہے ۔
٭شاہراہِ ریشم ایک اہم سڑک ہےجو پاکستان کو چین سے ملاتی ہے۔
٭کائنات میں بہت سے ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی ہم تک نہیں پہنچ پاتی۔
٭ سورج ،چاند ،ستاروں اور خلا میں دوسرے اجسام کا مطالعہ آ سڑنومی کہلاتا ہے۔
٭ کچھ لوگ محفوظ طریقے سے سورج گرہن کا مشاہدہ کرنے کے لیے خاص ماہیلر شیشہ استعمال کرتے ہیں۔
٭ ہم قوس قزح کو صرف اس وقت اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں جب سورج ہماری پشت پر چمک رہا ہو۔
یونی سائیکل پر وزنی باربیل سر سے اوپر اٹھانے کا عالمی ریکارڈ
سکاٹ لینڈ کے ایک ایتھلیٹ نے یونی سائیکل(ایک پہیے والی سائیکل) پر سوار ہو کر 68 کلو وزنی باربیل سر سے اوپر اٹھا کر گینیز عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔ایڈن برگ سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ جوش اولڈ کا کہنا تھا کہ یونی سائیکل پر سوار ہو کر بار بیل کے ذریعے سر سے اوپر سب سے زیادہ وزن اٹھانے کا آفیشل ریکارڈ اب ان کے نام ہے۔ جوش اولڈ، جو پیشہ ور یونی سائیکلسٹ اور ایک ٹی وی سیریز ننجا وارئیرمیں کوچ ہیں، کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود کو کووڈ کی عالمی وباء کے دوران یہ سِکھایا کہ اپنی دونوں عادات یعنی ایک پہیے والی سائیکل چلانا اور ویٹ لفٹنگ کو کس طرح یک جاکیا جاسکتا ہے۔
اردو ہے جس کا نام۔۔۔
زبان کسی بھی قوم کی ثقافت کا ایک اہم جز اور مافی الضمیر کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہوتی ہے۔ زبان ہی کے ذریعے انسان اپنے جذبات واحساسات سے دوسروں کو آگاہ کرتا ہے اور دوسروں کے خیالات جاننے کے قابل ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کے اتحاد و استحکام کے لیے زبان بہت اہمیت رکھتی ہے۔ زبانوں کا اختلاف ہی دو اقوام کی ثقافت کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں مختلف زبانیں رائج ہوں، اس میں عوام کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی زبان ہو جسے سب بطور ذریعہ اظہار استعمال کرسکیں، یہی زبان قومی زبان کہلاتی ہے۔ پاکستان آزاد ملک ہے لیکن یہاں پر مختلف زبانیں پنجابی، سندھی ، پشتو، سرائیکی اور بلوچی وغیرہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کیونکہ 21 مارچ 1947ء کو ڈھاکا میں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جنوبی پنجاب نے اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام دلانے کے لیے ‘فروغ’ کے نام سے جو پروگرام شروع کیا ہے، وہ ایک قابل تحسین بات ہے۔
ڈولفن : انسان دوست مچھلی
دوستو ! آج میں آپ کو ڈولفن مچھلی کے بارے میں چند معلومات فراہم کرتی ہوں۔ یہ انسان دوست مچھلی ہے اور انسانوں کی بہت اچھی دوست ہے۔ عظیم فلسفی ارسطو نے اپنے ایک واقعہ میں ایک ڈولفن کا ذکر کیا ہے جو ایک ندی میں رہتی تھی، وہ ایک بچے سے بہت مانوس تھی اور اس کے ساتھ کھیلا کرتی تھی، بچوں کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر ساحل کے قریب لہروں کی سیر کراتی تھی، یہ ڈولفن ڈوبنے والوں کو بچاتی تھی ، سمندر کے کنارے آنے والے لوگوں نے اس کا نام اوپو جیک رکھا تھا۔ وہ اس نام سے ڈولفن کو آواز دیتے تھے تو یہ مچھلی خوشی کا اظہار کرتی ہوئی ان کے پاس آ جاتی تھی اور اتنی سمجھ دار تھی کہ جب کوئی بچہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر لہروں کی سیر کرتا تو یہ مچھلی غوطہ نہیں لگاتی تھی، اسے پتہ تھا کہ غوطہ لگانے سے بچہ سمندر میں ڈوب جائے گا۔ڈولفن کے دماغ کا وزن 3.7 پونڈز ہوتا ہےجب کہ عام آدمی کے دماغ کا وزن 3.2 پونڈز ہوتا ہے۔انسانی جسم اور دماغ کا تناسب اور ڈولفن کے جسم اور دماغ کا تناسب تقریبا برابر ہے۔ ڈولفن انسان کی طرح خاندانی زندگی بسر کرتی ہے اور اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔جاپان کے ایک ماہر کا خیال ہے کہ اگر ڈولفن زمین پر زندہ رہ سکتی تو کتے سے زیادہ انسان کی وفادار ہوتی۔
سب سے زیادہ بلندی پر فٹ بال کھیلنے کا عالمی ریکارڈ
پرتگال کے لیجنڈ فٹ بالر لوئس فِیگو اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کی ایک ٹیم نے زیرو گریویٹی میں فٹ بال کھیل کر سب سے زیادہ بلندی پر فٹ بال کھیلنے کا گینیزورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے۔گینیز ورلڈ ریکارڈ بنانے کےلیے فیگو اور دنیا بھر کے کھلاڑیوں کی ایک ٹیم خصوصی جہاز میں سوار ہوئی جس میں ایک فٹ بال فیلڈ موجود تھی، جہاز میں زیرو گریویٹی کا ماحول بنانے کے لیے 20 ہزار 230 فٹ کی بلندی پر جہاز نے پیرا بولک راستہ اپنایا۔جہاز میں کھیلی گئی گیم نے کسی پیرابولک پرواز میں سب سے زیادہ بلندی پر فٹبال کھیلنے کا ریکارڈ توڑا۔
دلچسپ معلومات
٭دنیاکا سب سے بڑا اونچائی پر واقع چڑیا گھربھارت میں ہے۔
٭ماچس 1826ء میں برطانیہ کے ادویات ساز جان واکرنے اتفاقیہ طور پرایجاد کی۔
٭شکرہ وہ پرندہ ہے جو ہوا میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
٭ڈولفن مچھلی ایک آنکھ کھول کر سوتی ہے۔
٭جھینگےکا دل اس کے سر میں ہوتا ہے۔
٭ہمارا دل ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ دھڑکتا ہے۔
٭ایک مناسب سائز کے درخت کی لکڑی سے تقریباً 17000 پنسل بن سکتی ہیں۔
٭پیاز کاٹتے وقت چیونگم چبانے سے آنکھوں میں آنسو نہیں آتے۔
٭پاکستان کا پہلا سکہ 1948 میں جاری ہوا۔
عجیب و غریب انعام
کسی شخص نے خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک حیرت انگیز کرتب دکھانے کی اجازت چاہی ۔ اجازت مل گئی تو فرش کے بیچ ایک سوئی کھڑی کر دی اور کچھ فاصلے پر کئی سوئیاں اپنےہاتھ میں لے کر کھڑا ہو گیا۔ پھر اُس نے ایک سوئی اٹھائی اور فرش پر کھڑی سوئی کا نشانہ کیا۔ حاضرین کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ دوسری سوئی پہلی سوئی کے ناکے میں داخل ہو کر باہر ہو چکی ہے ۔ اسی طرح اُس نے دس سوئیاں پھنکیں اور دس کی دس پہلے والی سوئی کے ناکے سے باہر ہو گئیں۔ ہارون الرشید نے یہ حیرت انگیز کمال دیکھا تو حکم دیا کہ اس شخص کو دس دینار انعام میں دیےجائیں اور دس کوڑے لگائے جائیں۔ حاضرین نے جب اس عجیب و غریب انعام کی وجہ پو چھی تو ہارون الرشید نے بتایا کہ دس دینار اس کی ذہانت اور نشانے کی سچائی کا انعام ہےاور دس کوڑے اس بات کی سزا ہے کہ اس نے اپنی صلاحیتیں اور اپنا قیمتی وقت ایسے کام میں ضائع کیا جس کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں۔
استاد کی عظمت اشعار کے آئینے میں
اقوام عالم کے عروج و زوال کی داستانوں کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہیں جو تعلیم و تدریس کے شعبے کو بنیادی اہمیت دیتی ہیں۔ تعلیم و تعلم کے پورے عمل میں استاد ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ مہذب معاشروں کے تمام طبقات اپنے اساتذہ کو مثالی عزت و تکریم دیتے ہیں۔ دنیا کی تمام اہم زبانوں کی طرح اردو نظم و نثر نے بھی اساتذہ کی اہمیت اور فضیلت کو بخوبی اجاگر کیا ہے۔ اردو شعراء کی طرف سے اساتذہ کو پیش کیے گئے خراج عقیدت کے چند نمونے درج ذیل ہیں۔
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمھارے نعمت
(الطاف حسین حالی)
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
(چکبست برج نرائن)
وہی شاگرد پھر ہوجاتے ہیں استاد اے جوہر
جو اپنے جان و دل سے خدمت استاد کرتے ہیں
(لالا مادھو رام جوہر)
محروم ہوں میں خدمات استاد سے منیر
کلکتہ مجھ کو گور سے بھی تنگ ہو گیا
(منیر شکوہ آبادی)
حُسن معاشرت
انسان جس معاشرے میں رہتا ہے وہاں کے لوگوں سے اس کا تعلق قائم ہو جاتا ہے، اس تعلق کو اچھے طریقے سے انجام دینا حُسن معاشرت ہے۔ اس تعلق میں نہ صرف والدین، رشتہ دار اور دوست شامل ہیں بلکہ اس میں محلہ، وطن، قوم کے لوگ حتیٰ کہ حیوانات اور نباتات بھی شامل ہیں۔ چنانچہ حُسن معاشرت یہ ہے کہ اپنے پورے ماحول اور اس کے تمام افراد کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے جائیں، ان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے ، ہر انسان کا احترام کیا جائے، ہر شخص کو اس کا حق دیا جائے اور ہر ایک کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔
استاد کا مقام
استاد ایک ایسی شخصیت ہو تی ہے جس کے بارے میں جتنالکھا یا بیان کیا جا ئے کم پڑجا تا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے اس دنیا میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ استاد اپنے شاگرد کو اچھا انسان بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور شاگرد کی زندگی میں استاد کا بہت اہم کردار ہو تا ہے ۔ استاد اپنے شاگرد کو ہمیشہ کامیاب دیکھنا چا ہتا ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میراآقا قرار پایا ۔ استاد ہی ہے جو ہمیں کامیابی کی منزل تک پہنچاتا ہے ، ہمیں بھلائی ، سچائی اور اچھائی کا سبق دیتا ہے اور اس دنیا میں تعلیم کے میدان میں انسان جتنی کامیابی کر رہا ہے ، اس میں سب سے اہم کردار استاد کا ہے ۔ استاد کی عزت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ استاد ایک ایسی ہستی ہے جس کے جوتے اٹھانے میں خلیفہ وقت کے بیٹے بھی فخر محسوس کرتے تھے۔
پہلے تولو پھر بولو
ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیئےکہ یا تو اچھی بات کرے یا خاموشی اختیار کرے۔ہمارے الفاظ لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اچھے الفاظ ہمیشہ اچھا اثر چھوڑ تے ہیں۔ آپ کے کہے اچھے الفاظ کسی کو ساری زندگی تحریک دے سکتے ہیں۔ آپ کی کسی کے منہ پر دی گئی دعا کسی کے لیے تا حیات ہدایت کا باعث بن سکتی ہے۔ ممکن ہے آپ کو اچھے الفاظ سننے کو نہ ملے ہوں مگر کوشش کریں کہ آپ خود دوسروں کے لیے باعث خیر اور باعث برکت بنیں، کوئی معمولی سی اچھائی بھی کرے تو اس کے منہ پر شکریہ ادا کریں۔ اسے دعا دیں۔آپ بھول جائیں گے مگر آپ کے مثبت الفاظ کسی کے دل پر ہمیشہ نقش ہو جائیں گے اور اللہ کے پاس سے آپ کو مسلسل اجر ملتا رہے گا۔اسی طرح برے الفاظ کسی کو ہمیشہ کے لیے دل برداشتہ کردیتے ہیں، آپ کے طنزیہ الفاظ کسی کو ہمیشہ کے لیے دین سے یا الله سے یا خوشیوں سےیا زندگی سے دور کرسکتے ہیں۔ یہ آپ کے لیے مسلسل گناہ کا باعث بنے رہیں گے حتیٰ کہ آپ کی موت کے بعد بھی کسی کے کے دل پر لگے آپ کے لفظوں کے زخم آپ کو گناہ دلواتے رہیں گے۔
لائبریری
آج اتوار ہے۔ اسلم لائبریری کی طرف جا رہا ہے۔ لائبریری اس کے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ وہ ہر اتوار وہاں جانا پسند کرتا ہے۔ وہ وہاں اپنے دوستوں سے ملنے جا رہا ہے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اچھی اور پرسکون جگہ پر پڑھنا پسند کرتا ہے۔ لائبریری میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ اسلم کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں پڑھنا پسند ہے۔ ایک گوشہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق کتابوں کے لیے مختص ہے۔ وہ کچھ کتابیں اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ چند گھنٹے پڑھنے میں صرف کرتا ہے۔ پڑھنا اچھی عادت ہے۔ یہ اسے ہمیشہ خوش کرتا ہے۔ حکومت نے جنوبی پنجاب میں لائبریریاں قائم اور اپ گریڈ کی ہیں۔ ہر طالب علم کو علم حاصل کرنے کے لیے لائبریری میں وقت گزارنا چاہیے۔
مہمان نوازی
رحمت اللعالمین ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ مہمان کی خصوصی ضیافت (خاطر مدارت) ایک دن اور ایک رات تک ہےاور عمومی ضیافت تین دن اور تین راتوں تک ہے۔ تین دن بعد بھی ( اگرمیزبان بوجھ نہ سمجھے اور) مہمان کی ضیافت کرے تو یہ صدقہ شمار ہوگا۔
ہدایت مانگنا شرط ہے
ہدایت سُننے میں لفظ بہت چھوٹا ہے لیکن معنی بہت وسیع رکھتا ہے ۔ ہدایت اُسی انسان کو ملتی ہے جو ڈھونڈتا ہے اور اسے پانے کی کوشش کرتا ہے اور جو پا لیتا ہے، وہ غنی ہو جاتا ہے۔ اس لیے کچھ اور مانگیں یا نہ مانگیں ہدایت ضرور مانگا کریں ۔ یہ بھی صرف انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جنہیں ربّ العالمین اپنا قرب دینا چاہتا ہے ۔ دعا ہے کہ اللّٰہ ہمیں بھی اپنے ان لوگوں میں شامل کرے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
احساس ایک خوب صورت جذبہ ہے اور اپنی ذات کا احساس انسان کاپہلاحق ہے مگرجو دوسروں کا احساس کرتے ہیں وہ عظیم تر ہوتے ہیں۔ احساس ہی انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتاہے۔ خواجہ میر درد نے کیا خوب کہا ہے کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
علم روشنی ہے
علم کے بغیر انسان اندھیرے میں ہوتا ہے۔ علم انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے۔ علم کے معنی جاننا اورآگاہی حاصل کرنے کے ہیں۔ علم کا مطلب یہ نہیں کہ ہم چند کتابیں یاد کرلیں بلکہ علم کا مطلب ہے یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی ہر طرح کے پہلوؤں سے آگاہی حاصل کی جائے۔ ہر شخص اس معاشرے میں باعزت زندگی گزارنا چاہتا ہے لیکن باعزت زندگی علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم انسان کے اندر کچھ نیا جاننے کی لگن لاتا ہے۔ علم انسان کو برے راستوں سے بچاتا ہے۔ اسلام نے بھی علم کی اہمیت پر زور ڈالا ہے۔ علم انسان کی زندگی کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ علم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
اسلام میں علم کی اہمیت
اسلام نے علم کے حصول کے لیے بہت حوصلہ افزائی کی۔ سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنے والی پہلی آیت اقراء تھی جس کا مطلب ہے پڑھنا۔ ۔ قرآن پاک نے بنی نوع انسان پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے علم کے بارے میں سوچیں، غور کریں اور حاصل کریں جو انہیں خدا اور اس کی تخلیق کے قریب لے آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کا حکم فرمایا اور ان پر زور دیا کہ جہاں تک وہ پہنچ سکیں علم حاصل کریں اور ہر وقت اس کی تلاش کریں۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ میں اس شخص کا غلام رہوں گا جو مجھے لکھنا پڑھنا سکھاتا ہے ۔ ان احکامات اور روایات پر عمل کرتے ہوئے مختلف ادوار میں مسلم حکمرانوں نے اصرار کیا کہ ہر مسلمان سیکھنے کا حصول کرے اور انہوں نے علمی اداروں کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔
رات کو سورج کہاں چلا جاتا ہے
سورج رات کو بھی بالکل اسی جگہ ہوتا ہے۔ جہاں دن میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی اپنی جگہ بدلتا ہے تو وہ ہماری اپنی زمین ہے۔ رات اور دن اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ ہماری زمین مستقل گھوم رہی ہے۔ یہ چوبیس گھنٹے میں ایک چکر مکمل کرتی ہےتو اس کا مطلب ہے کہ اس وقت ہم زمین کے اس زاویےپر کھڑے ہیں جہاں سورج کی روشنی نہیں پڑ رہی ہے۔ اسی لیے جس وقت ہم گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت سورج زمین کی دوسری طرف چمک رہا ہوتا ہے اور وہاں کے رہنے والے صبح صبح اپنے کاموں کے لیے نکل رہے ہوتے ہیں۔ اگر کراچی میں رات کے نو بجے نیو یارک فون کیا جائے تو وہاں اسی وقت چمکتی دوپہر ہوتی ہے۔ لوگ اپنے کاموں میں اور دفتروں میں مشغول ہوتے ہیں۔
دلچسپ و عجیب
٭ انڈا وہ واحد مائع چیز ہے جو گرم کرنے پر جم جاتی ہے۔
٭ شکرا وہ واحد پرندہ ہے جو ہوا میں کھڑا ہو سکتا ہے۔
٭کولمبیا کا دریائے رائیووفاگری دنیا کا وہ واحد دریا ہے جس میں کوئی مچھلی نہیں۔
٭ نظام شمسی کے سیاروں میں سب سے چھوٹا سیارہ نیپچون ہے۔
٭ دنیا میں سب سے زیادہ پیدا ہونے والی سبزی آلوہے۔
٭ ہوا ایک ایسی چیز ہے جو سورج کے سامنے ہوتی ہے مگر اس کا سایہ نہیں ہوتا۔
٭ کیلے کا درخت وہ واحد درخت ہے جس میں لکڑی نہیں ہوتی۔
کیا آپ جانتے ہیں؟
٭ دنیا میں سب سے پہلے سورج جاپان میں طلوع ہوتا ہے اس لیے اسے چڑھتے سورج کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔
٭ مسجد الحرام دنیا کی واحد مسجد ہے جس میں کوئی محراب موجود نہیں ہے۔
٭ دنیا کا سب سے قدیم شہر دمشق ہے۔
٭ پاکستان کے پہلے صدر جنرل سکندر مرزا تھے۔
٭ پاکستان میں انسانی ہاتھوں سے لگایا گیا سب سے بڑا مصنوعی جنگل چھانگا مانگا لاہور میں ہے۔
پنجاب کا ثقافتی دن
انسانی زندگی کے ارتقاء اور بقاء میں تہذیبی اقدار وتمدن کو بےحد اہمیت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کے دنیا میں ہر قوم کسی نہ کسی سطح پہ اپنی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیےکسی نہ کسی دن کا انتخاب کرتی ہے۔بالکل اسی طرح پاکستان میں موجود مختلف قسم کی روایتوں کے بقاء اور تسلسل کے لیے قومی، صوبائی اور علاقائی سطح پر تہواروں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی ایسا ہی ایک دن منایا جاتا ہے۔پنجاب کی زمین متنوع روایات کی امین ہے۔اس کے پانچ دریا سیرابی کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ کے بہت سے روشن پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں ۔ صوبہ پنجاب میں ہر سال چودہ مارچ کو پنجاب کا ثقافتی دن بڑے جوش و جذبہ سے منایا جاتا ہے۔ اس دن پنجاب میں بسنے والے لوگ اپنی قدیم ثقافتی اقدار جن میں پنجاب لوک رقص،لوک موسیقی، جھومر ،کبڈی و دیگر مقامی کھیلوں کے علاوہ ساگ اور مکئی جیسے روایتی کھانوں کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں ۔ گدا ، لڈی اور کوکلا چھپاکی جیسے مقامی کھیلوں کو بچیاں اپنی ہم جولیوں کےسنگ نہایت خوب صورت انداز میں پیش کرتی ہیں۔ہیر رانجھااور سوہنی مہیوال جیسے لازوال کرداروں کو پیش کیا جاتا ہے۔الغرض پنجابی تہذیب و تمدن کوپر کشش انداز میں بیان کرنا اور اس کی قدیم روایات کی چھاپ کو برقرار رکھتے ہوئے پنجاب میں بسنے والے لوگوں تک اس ورثہ کی حفاظت کرنا ہی اس دن کو منانے کا اصل مقصد ٹھہرتا ہے۔
دلچسپ معلومات
٭ چاند پر سب سے پہلے گالف کا کھیل کھیلا گیا۔
٭ فرانس کے بادشاہ لوئی چہاد دہم کے منہ میں پیدائش کے وقت دو دانت تھے۔
٭ جاپان کا شہر ٹوکیو وہ واحد شہر ہے جہاں کوئی فقیر نہیں۔
زندگی جسم ہے تو جدوجہد اس کی روح
ہماری زندگی کی بھی ایک زندگی ہوتی ہے اور وہ ہے اس میں کی جانے والی جدوجہد۔ اگر جدوجہد کا پہلو زندگی سے نکال دیا جائے تو اسے ہم شرمندگی تو کہہ سکتے ہیں مگر زندگی نہیں۔ اور یاد رہے کہ جدوجہد کی ضرورت ہمیں اپنے آپ کو صرف برے وقت سے نکالنے کے لیے ہی نہیں پڑتی بلکہ اس کی ضرورت ہمیں اپنے آپ کو اچھے وقت میں سنبھالنے کے لیے بھی پڑتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر زندگی جسم ہے تو جدوجہد اس کی روح ہے اور روح کے بغیر جسم زندہ لاش کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
چیونٹی اور عقاب
اے عقاب ! مجھے ایک بات تو بتا۔ لوگ مجھے پاؤں کے نیچے روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ میں ذلیل و خوار ہوں۔ دن رات کی محنت اور مشقت کے باوجود پریشان اور دکھی ہوں۔آخر اس کا سبب کیا ہے؟رزق کے لیے جدوجہد تو میں بھی کرتی ہوں اور تو بھی کرتا ہے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ میں لوگوں کے قدموں تلے پامال ہو کردن رات دکھ سہتی ہوں اور تیرا مقام و مربتہ ستاروں سے بھی بلند ہے؟
اے چیونٹی !اپنی پریشانی اور دکھ کا باعث تو خود ہے۔ تیر ی پامالی ، ذلت وخواری ، پریشانی اور دکھ درد کا باعث یہ ہے کہ تو اپنا رزق راستے کی خاک سے تلاش کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ تو یہی ہو سکتا ہے کہ ہر راہ چلنے والا تجھے روندتا ہوا گزر جائے اور تود کھ اٹھاتی رہے۔ جو بھی اپنا رزق راستے کی خاک میں تلاش کرے گا اور راستہ چلنے والوں کےپیروں تلے آکر اس طرح دکھ اور تکلیف اٹھائے گا۔ تیر ی طرح رزق کے لیے جدوجہد تو میں بھی کرتا ہوں لیکن تیری جدوجہد خاک تک محدود ہے جب کہ میں رزق کی تلاش کرتے ہوئے آسمانوں کو بھی نگاہ میں نہیں لاتا۔
علامہ اقبال ؒ نےا س نظم میں چیونٹی اور عقاب کی زندگی کا موازنہ کیا ہے۔ چیونٹی اور عقاب کے مکالمے کے پیرائے میں انہوں نے ہمیں بتا یا ہے کہ رزق کی تلاش کے لیے جدوجہد تو سب ہی جان داروں کو کرنی پڑتی ہے لیکن جدوجہد کا میدان ہر ایک کے عزم و حوصلے اور ہمت و طاقت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ اونچا مقام و مرتبہ ان ہی کا حق ٹھہر تا ہے جن کی جدوجہد کا میدان دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ عزت کے حق دار وہ ٹھہرتے ہیں جو رزق کی تلاش میں زمین سے چمٹے رہنے کی بجائے آسمانوں کی بے کراں فضاؤں کو کھنگال ڈالتے ہیں ۔ چیونٹی اس لیے ذلیل و خوار ہے کہ وہ راستے کی خاک سے اپنا رزق تلاش کرتی ہے۔ اس کےمقابلے میں عقاب اس لیے ارجمند ہے وہ تلاش رزق میں آسمانوں کی بے کراں وسعتوں کا بھی خاطر میں نہیں لاتا۔
اسٹیٹ لائبریری ماسکو
کتاب کو انسان کا بہترین ساتھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ کتاب آپ کے ساتھ ہو تو نہ آپ کو تنہائی کا احساس ہوتا ہےاور نہ ہی بوریت کا۔ گو کہ الیکٹرانک میڈیا نے کتابوں تک انسانوں کی رسائی آسان بنا دی ہے تاہم اس میں مطالعہ فروغ پانے کی روایت دم توڑتی جارہی ہے، محض چند الفاظ لکھ کر آپ اپنا مطلوبہ مواد تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اس سے صرف وقت کی بچت ہی ہوتی ہے۔ اگر ہاتھوں میں کتاب ہوگی تو آپ کی دنیا کتاب ہے۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال درحقیقت انسان کو کتاب سے دور کرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ دنیا میں ایسی بہت سی لائبریریاں موجود ہیں ۔جن میں موجود نایاب کتب آپ کو انٹرنیٹ سے بھی نہیں ملیں گی۔روس کے تاریخی شہر ماسکو میں واقع سٹیٹ لائبریری ایک بڑا علمی ذخیرہ رکھتی ہے۔ یہاں ایک کروڑ 75 لاکھ سے زائد کتب موجود ہیں۔ اس میں روسی ادب کا ایک بڑا ذخیرہ ہے۔روسی فن تعمیر کے حوالے سے بے شمار کتابیں ہیں۔ یہاں پر تقریبا اڑھائی سو مختلف زبانوں میں لکھی گئی کتابیں موجود ہیں۔
دلچسپ معلومات
٭ماچس 1826ء میں برطانیہ کے ادویات ساز جان واکرنے اتفاقیہ طور پرایجاد کی۔
٭شکرہ وہ پرندہ ہے جو ہوا میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
٭ڈولفن مچھلی ایک آنکھ کھول کر سوتی ہے۔
٭جھینگےکا دل اس کے سر میں ہوتا ہے۔
٭ہمارا دل ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ دھڑکتا ہے۔
٭ایک مناسب سائز کے درخت کی لکڑی سے تقریباً 17000 پنسل بن سکتی ہیں۔
٭پیاز کاٹتے وقت چیونگم چبانے سے آنکھوں میں آنسو نہیں آتے۔
٭پاکستان کا پہلا سکہ 1948 میں جاری ہوا۔
انڈا کھانےکے فوائد
٭ انڈا قوت مدافعت بڑھانے کابہترین ذریعہ ہے۔
٭ انڈا خون میں اینٹی باڈیز بناتا ہے۔
٭ انڈے میں قدرتی طورپرایسے اجزاءہوتے ہیں جو بیکٹیریا اور وائرس کے خلاف کام کرتے ہیں۔
٭انڈا موٹاپے سے بچاتا ہے۔
٭ انڈے میں وٹامن ڈی وافر مقدار میں موجود ہوتاہے جوہڈیوں کو مضبوط کرتاہے۔
٭چاہے بچہ ہو یا بڑا، ہر عمرکےافراد کوایک انڈا روزانہ کھاناچائیے۔
بیٹی سے پیار کریں
آج بھی ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اور انہیں تعلیم تک نہیں دلواتے ۔ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی اسے مار دیا جاتا تھا۔ رحمۃ الالعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو ماں ،بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے عزت دی اور وراثت میں بھی ان کا حصہ مقرر کیا۔آج بھی دنیا میں ایسے جاہل لوگ مو جود ہیں جنہیں اپنی بیوی اور بیٹی کے حقوق کے بارے میں کوئی علم نہیں ۔ وہ بیوی پر تشدد کرتے ہیں اور بیٹی کو عزت نہیں دیتے ۔ یہ سب تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ آج لڑکیاں ائیر فورس ،آرمی ،میڈیکل سمیت ہر شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ میری آپ سب سےدرخواست ہےکہ اپنی بیٹی کو پڑھائیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے اور اپنا مستقبل محفوظ بنا سکے۔
کاروبار میں دیانت
جو شخص دھوکادے وہ ہم میں سے نہیں۔ ایک جنس کا ڈھیر اس طرح سے لگائے کہ اوپر اچھا مال ہو اور نیچے ناقص ہو یا مال میں ملاوٹ کرے یا قیمت اعلیٰ مال کی لے اور اس کے بدلےگھٹیا مال دے۔ اسی طرح ناپ تول میں ہیرا پھیری بھی کاروبار کے سلسلے میں بہت بری اور عام قسم کی بددیانتی ہے۔ قرآن کریم میں کئی جگہ اس سے منع کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃالرحمٰن، سورۃالشعراء، سورۃ ہود، سورۃ الاعراف، سورۃ الانعام اور سورۃ بنی اسرائیل میں ایسی بددیانتی کی مذمت آئی ہے۔ سورۃالمطفّفین کا تو نام ہی اس کاروباری بددیانتی کے حوالے سے رکھا گیا ہے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر اسی بددیانتی کی وجہ سے عذاب الٰہی نازل ہوا تھا۔
کیا آپ جانتے ہیں؟
٭ انسانی بال اور ناخن ہر وقت بڑ ھتے رہتے ہیں۔اگر بال نہ کا ٹے جائیں تو ایک میٹر تک لمبے ہو نے کے بعد ان کی نشو و نما رک جائے گی۔تاہم بعض لوگوں کے بال بڑھنا بند نہیں ہو تے ۔با لوں کی سب سے زیادہ لمبائی چار میٹر ہے۔
٭ انسانی آنکھ کے پٹھے سب سے زیادہ کام کرتے ہیں۔یہ دن میں تقریبا ایک لاکھ مر تبہ سکڑتے اور پھیلتے ہیں۔
٭ انسانی ہاتھ کی انگلیوں پر بہت سارے چھوٹے دائرے اور لکیریں بنی ہوتی ہیں ، یہ انگلیوں کے نشانات کہلاتے ہیں ، ہر شخص کی انگلیوں کے نشانات مختلف ہوتے ہیں۔
٭ ایک انسان اپنی زندگی میں تقریبا پچاس ٹن خوراک اور تقریباً پچاس ہزار لیٹر مائع پینے میں استعمال کرتا ہے۔
آبی سکول
کینیڈا کی جھیل اونٹاریوسے متصل وسیع تر سمندر کی گہرائیوں میں بچوں کا ایک سکول تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ آبی سکول بلاشبہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔ اس عجوبے کو 1980میں تعمیر کیاگیا تھا۔ چار انچ موٹے شفاف شیشے کی مدد سے سمند کی تہہ میں کلاسیں تعمیر کی گئی ہیں۔ جہاں طلباء و طالبات سمندری ماحول میں رہ کر ہر مخلوق کا انتہائی قریب سے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ کانچ کے موٹے خول کے باہر چاروں طرف تاحد نظر واٹر پروف بلب روشن کیے گئے ہیں تاکہ سمندر کی تہہ میں ہونے والی ہر طرح کی چہل پہل کو واضح طور پر دیکھا جا سکے۔ اس دنیا میں صرف مچھلیاں ہی نہیں اور بہت سی دوسری آبی مخلوقات بستی ہیں۔ 14515کلوگرام وزنی شارک مچھلی کو بھی یہاں منڈلاتے دیکھا جا سکتاہے۔ آبی ممالیہ ہیوی سائیڈ ڈولفن اکثر سکول کے باہر جمع ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات ان کے بچے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ دلچسپ کرتب دکھاتی ہیں اور بعض طلبہ سے دوستی بھی کر لیتی ہیں۔ شاید یہ بات سمندری مخلوقات کو معلوم ہے کہ معصوم بچوں کے ننھے ہاتھ اپنے قلم سے ان کے روز وشب کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ اس لیے آبی مخلوقات حیرت انگیز نظارے دکھا کر سکول انتظامیہ کے ساتھ پورا پورا تعاون کر رہی ہیں۔ کینیڈا میں آبی سکول کی تعمیر کے بعد دنیا کے مزید 45ملکوں میں زیرِ آب سکول تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ اسلامی ممالک میں برونائی اس فہرست میں شامل ہے جب کہ بنگلہ دیش میں آبی سکول کی تعمیر کا آغاز ابھی حال ہی میں ہوا ہے۔ پاکستان کے پاس بھی آبی سکول کی تعمیر کے لے موزوں ترین تیمر ساحل موجود ہے مگر تاحال اس کے بارے میں سوچا نہیں گیا۔
تین دوست
علم، دولت اورعزت ، تینوں ایک مقام پہ جمع تھے ۔ جب رخصت ہونے لگے تو ان کے درمیان کچھ اس طرح گفتگو ہوئی ۔
دولت نےکہا: میں جا رہی ہوں اگر مجھے تلاش کرنا ہو تو امیروں کے محلوں میں تلاش کرنا ، میں دوبارہ مل جاؤں گی ۔
علم نے کہا:میں رخصت ہو رہا ہوں اگر مجھے تلاش کرنا ہو تو تعلیمی اداروں میں تلاش کرنا ، میں پھر مل جاؤں گا ۔
عزت چپ رہی ،وہ کچھ نہیں بولی ،دونوں ساتھیوں نے پوچھا تو خاموش کیوں ہے ؟عزت نے جواب دیا کہ میں بھی جاتی ہوں لیکن میری بات یہ ہے کہ جب ایک بار چلی جاتی ہوں تو پھر دوبارہ واپس نہیں آتی۔
قائد اعظم ریزیڈنسی زیارت
یہ عمارت صوبہ بلوچستان کے صحت افزا مقام زیارت میں واقع ہے ۔یہ خوب صورت عمارت 1892 میں تعمیر کی گئی۔ لکڑی سے تعمیر کی گئی یہ عمارت فن تعمیر کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔ 1948 میں قائد اعظم محمد علی جناح بیماری کے دنوں میں ڈاکٹروں کے مشورے سے یہاں آئے اور اپنی زندگی کے آخری دو ماہ دس دن اس رہائش گاہ پر قیام کیا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد اس عمارت کو قائد اعظم ریزیڈنسی کا نام دے کر قومی ورثہ قرار دے دیا گیا ۔ اس عمارت میں قائد اعظم کے زیر استعمال رہنے والی اشیا کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے ۔ پاکستان کے سو روپے کے کرنسی نوٹ کی پشت پر اس عمارت کی تصویر موجود ہے ۔
سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
شیخ سعدی ؒسفر کر رہے تھے کہ ایک بستی سے گزرے ۔بستی کے کتے زور و شور سے بھونکتے ہوئے شیخ سعدی ؒکی طرف لپکے۔ شیخ صاحبؒ زمین کی طرف جھکے تاکہ کوئی ڈھیلایا پتھر وغیرہ اٹھا کر کتوں کی طرف پھینکیں یا کوئی لکڑی اٹھا کر کتوں کو ڈرائیں۔ مگر زمین بہت پختہ اور صاف تھی کہ کچھ بھی شیخ صاحبؒ کے ہاتھ نہ لگا۔بڑے درد دل سے بولے کہ اے خدا ! یہ کہاں آ پہنچا ہوں؟ یہاں کتے تو چھوڑ دیے گئے ہیں مگر پتھر باندھ دیے گئے ہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور کھیل کے میدان
کبھی وہ وقت بھی تھا جب کھیل کے میدان ہوا کرتے تھے اور بچوں کو اس میں کھیل کود اور اس سے متعلقہ سر گرمیوں کا موقع ملتا تھا۔ لیکن وقت بدل رہا ہے اور آبادی ایک بہت بڑی شرح سے بڑھ رہی ہے ۔کھیل کے میدان سرکاری و غیر سرکاری عمارات میں بدل رہے ہیں ۔کھیل کود زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ کھیل کود اور جسمانی ورزش سے جسم پھرتیلا اور طاقت ور جب کہ ذہنی طور پر انسان تروتازہ رہتا ہے ۔ بدقسمتی سے اب کھیل کود گلی کوچوں اور گھر کے صحنوں میں محدود ہو گئے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہم سب کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیا جائے اور کھیل کے میدانوں کو آباد رکھا جائے۔
قوس قزح کیا ہے
بارش تھمے، بادل چھٹ جائیں اور سورج اپنا چمکتا دمکتا مکھڑا نکالے تو بعض وقت اس کے بالکل سامنے آسمان پر ایک رنگین کمان سی بن جاتی ہے۔ اسے قوس قزح یا دھنک کہتے ہیں۔ یہ صرف دن میں دکھائی دیتی ہے۔ رات میں نہیں، کیونکہ یہ سورج کی روشنی ہی سے بنتی ہے۔ سورج کی روشنی ظاہر میں سفید نظر آتی ہے لیکن اصل میں اس کے اندر مختلف رنگ کی کرنیں ہوتی ہیں جو آپس میں گڈمڈ ہونے کی وجہ سے الگ الگ دکھائی نہیں دیتیں۔ جب یہ کرنیں شیشے یا پانی میں گزرتی ہیں ٹیڑھی ہو کر الگ الگ ہو جاتی ہیں اور ہم ان کے رنگ جدا جدا دیکھ سکتے ہیں۔
دلچسپ معلومات
٭ البرٹ آئن سٹائن کی تاریخ، جغرافیہ اور زبانوں میں تعلیمی کارکردگی کمزور تھی۔ لہذا اسے بغیر کسی ڈپلومہ حاصل کیے اسکول چھوڑنا پڑا۔
٭ ارشمیدس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سسلی میں گزارا۔ جہاں بادشاہ ہائرن دوم کے ساتھ اس کے گہرے مراسم تھے۔
٭ سولہ سال کی عمر میں ثانوی تعلیم مکمل کرنے پر میری کیوری نے سونے کا تمغہ حاصل کیا، اپنے والد کی مالی تنگ دستی کے باعث مادام کیوری کو بحیثیت استاد کام کرنا پڑاتھا۔
٭ مسلمان ریاضی دان الخوارزمی کو الجبرا کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔
٭ ابن زہر(1091ء تا 1161ء) مسلمان ماہرطب تھے جنہوں نے پوسٹ مارٹم اور سرجری کی ابتدا کی۔
حکایت سعدی
موسم سرما کی ایک رات بادشاہ کسی ضرورت سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک غلام جو پہرے پر کھڑا تھا سردی کی شدت سے اس کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے ۔بادشاہ نے یہ دیکھا تو اس کا دل بھر آیا ۔وہ بولا میں تمہارے لیے کوئی ایسی چیز بھجواتا ہوں جو تجھے سردی سے بچائے ۔ یہ کہہ کر بادشاہ محل واپس گیا لیکن محل جاکر بادشاہ کو اپنی بات بھول گئی ۔اس رات بے چارے غلام نے دوہری زحمت اُٹھائی اک سردی کی ،دوسری انتظار کی ۔ اس لیے شیخ سعدی فرماتے ہیں کسی سے ایسی بات نہ کہو جس کے انتظار سے اسے کبھی نیند نہ آئے۔
کیا آپ جانتے ہیں
٭ ترکی کا قومی نشان بھیڑیا ہے۔
٭ صوبہ سندھ کو وادی مہران بھی کہا جاتا ہے۔
٭ پاکستان کے قومی ترانے میں اردو زبان کا ایک لفظ استعمال ہوا اور وہ لفظ (کا) ہے۔
٭ چلی کا ایک ریگستان اٹاکاما ہے، وہاں آج تک بارش نہیں ہوئی۔
عقل داڑھ کا عقل سے کیاتعلق ہے؟
شاید کبھی آپ کے دانت ہلنے لگے ہوں یا ہل چکے ہوں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ مسوڑھوں کے اندر دوسرے مضبوط اور بڑے دانت نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ ہرشخص دانتوں کے دو سیٹ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ 6 ماہ کی عمر میں دانتوں کا پہلا سیٹ مسوڑھوں سے نکلنا شروع ہوتا ہے جنہیں دودھ کے دانت کہا جاتا ہے۔ یہ تعداد میں بیس ہوتے ہیں۔ 6 سال عمر میں دودھ کے دانت ڈھیلے ہوکر ہلنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس عمر میں مستقل دانت مسوڑھوں کے اندر سے دودھ کے دانتوں کو دھکا دے کر باہر آنے لگتے ہیں۔ مستقل دانتوں کی تعداد 32 ہوتی ہے۔ ان میں سے چار دانت اس وقت تک نہیں نکلتے جب تک کہ آپ کی عمر بیس سال کی نہیں ہو جاتی۔ ان دانتوں کو عقل داڑھ کہتے ہیں۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں عقل داڑھ نکلنے کے بعد آدمی کی عقل مکمل ہوتی ہے لیکن یہ درست نہیں ، عقل کا عقل داڑھ سے کوئی تعلق نہیں ۔
کھیل کود صحت کے لیے ضروری
انسان کے جسم کے لیے ورزش کرنا بہت ضروری ہے۔ کھیل کود سے بھی سارے جسم کی ورزش ہو جاتی ہے ۔ کھیلنے سے سارے جسم کے پٹھے اور ہڈیاں مضبوط ہو تی ہیں۔ سارے جسم میں تازہ خون گردش کرتاہے جس سے سارا جسم تروتازہ ہو جاتاہے اور جسم کو قوت اور صحت حاصل ہو تی ہے۔صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوتاہے اور وہ ہر کام اچھے طریقے سے کر سکتاہے۔