آمنہ ( چشتیاں)
لوگ مجھے کچی پنسل کے نام سے جانتے ہیں، لیکن میں ہمیشہ سے ہی ایسی نہ تھی۔ چندماہ قبل میں ایک گھنے اور سر سبز پیڑ کی نئی نویلی شاخ کا حصہ تھی۔ رنگ برنگے موسموں سے لطف اندوز ہوتی۔خوب صورت پرندے میرے ہم نشین رہتے اور ہوا کے جھونکوں سے کھیلتی رہتی۔ ایک دن کچھ لوگ آئے اور میرے پاس کھڑے ہو کر اشاروں اور سرگوشیوںمیں کچھ باتیں کرنے لگے۔ مجھے ان کی باتیں تو سمجھ نہیں آ رہی تھیں، لیکن ایک انجانا سا خوف میرے دامن گیر تھا۔ ان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد کچھ اور لوگ آئے جن کے پاس لوہے کے بڑے بڑے کلہاڑے اور آرے تھے۔ پھر وہی ہوا جس بات کا مجھے ڈر تھا۔ ان لوگوں نے پہلے میرے پیڑ کو کاٹا اور پھر ہم سہیلیوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے اور گاڑیوں میں لاد کر کسی اجنبی سی منزل کی جانب چل دیے۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ میں سب سے نیچے دبکی پڑی تھی، حبس کے مارے میرا دم بھی گھٹنے لگا۔ آخرکار ہمیں ایک بڑے سے کارخانے میں پہنچایا گیا۔ کارخانے میں رنگ برنگی مشینیں کام کر رہی تھیں۔ ان کے شور کی وجہ سے میرے کان پھٹے جا رہے تھے۔ ہمیں بھی گاڑی سے اتار کر انہی مشینوں کے پاس لایا گیا۔ ان مشینوں نے تو ہماری شکلیں ہی بگاڑ دیں۔ کاٹ کاٹ کر ہمیں مختلف شکلوں میں ڈھالا گیا اور پھر ہمیں ایک دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔ وہاں پھر ہمارا واسطہ مختلف آلات سے پڑا۔ کسی نے دبایا، کسی نے گھمایا اور کسی نے مختلف انداز میں کاٹا۔ آخر میں ہمارے اندر ایک سیاہی مائل مادہ بھرا گیا اور پھر مختلف رنگوں میں ہمیں نہلا کر ہم پر مہریں لگا کر ہمیں ڈبوں میں بند کر دیا گیا۔ میرا ڈبہ شہر شہر گھومتا گھماتا چشتیاں منڈی پہنچا۔ منڈی سے ہوتی ہوئی میں ایک بڑے جنرل سٹور کی زینت بنی۔ وہاں سے آمنہ کے بابا مجھے پسند کر کے اپنی گڑیا کے لئے لے گئے۔ اب میں آمنہ کے بیگ میں ہوتی ہوں۔ وہ مجھ سے نئی نئی تحریریں لکھتی رہتی ہے۔ جب وہ کبھی مجھے پیار سے اپنے بالوں میں گھماتی ہے تو مجھے بہت مزہ آتا ہے۔ میں اب بہت خوش ہوں۔