تیرا علاج نظر کے سوا کچھ بھی نہیں

طاہرہ ارشد (ترنڈہ محمد پناہ)

ایک وقت تھا جب مائیں اپنے بچوں کو خیبر و خندق کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ گھر میں ہمیشہ سچ بولنے اور دوسروں کی عزت کرنے کا سبق دیا جاتا تھا۔ ان بھولے بھالے بچوں کو شیخ عبد القادر جیلانی کے بچپن کا واقعہ بتایا جاتا تھا اور سچ کی اہمیت واضح کی جاتی تھی۔ اسی طرح بابا فرید گنج شکر کا قصّہ، نابینا کو راستہ دکھانا، بڑوں کا احترام کرنا، مل جل کر رہنا، کسان کی محنت اور مزدور کی عظمت ہماری باتوں اور کہانیوں کے موضوعات ہوتے تھے۔ ان کہانیوں کے پلاٹ میں دلچسپی ہوتی، تاریخ اور مذہب کا مطالعہ بھی موجود ہوتا تھا۔ انسانیت کے لئے ہمدردی اور ضبط کے سلیقے سکھائے جاتے۔ اس میں مثالیں بھی شامل ہوتیں جس سے زندگی میں کار آمد بننے کی جستجو بھی شامل ہو جاتی، غرض یہ کہ کئی اصلاحی پہلو ہوتے تھے۔

گھر کے بعد مدرسہ ایسی جگہ ہے جہاں ہم بچے کو کچھ سیکھنے کے لیے بھیجتے ہیں مگر افسوس وہاں مطلوبہ اہداف نظر انداز ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آج ہماری ترجیحات بدل چکی ہیں، ہمارا نصاب وقت کی ضروریات سے ہم آہنگی نہیں رکھتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نصاب کا وزن بڑھتا گیا مگر علمی پہلو تشنہ ہی رہا۔ ہمارا نصاب بد قسمتی سے ہماری راہ متعین نہیں کرتا۔ رہی سہی کسر یوں پوری ہوئی کہ ہم نے علم کے لئے دنیاوی اور دینی علم کی صرف اصطلاحات کا استعمال کیا جب کہ علم کی حقیقی تعریف بتدریج متاثر ہوتی چلی گئی۔ اس طرح منزل کو پانا مشکل اور صبر آزما ہوتا گیا جس سے ہمارا بچہ اس بوسیدہ نظام میں  جکڑ کر رہ گیا۔ وہ کائنات کے مطالعہ کے لئے کیا تیار ہوتا الٹا چشمِ حیراں سے تک رہا ہے۔

یوں تو خسارہ اٹھا ہی رہے تھے ہم لوگ، پھر کچھ دن اُدھر نظر دوڑائی تو یاد آیا کہ تعلیم کے ساتھ ایک بہت ضروری لفظ جڑا ہوا ہوتا تھا اور وہ لفظ تھا ”تربیت ”۔ تعلیم و تربیت ہمیشہ اکٹھا لکھا نظر آتا تھا۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے علیحدہ تصور نہیں تھا۔ مگر افسوس آج تربیت کا لفظ کہیں لکھا نظر نہیں آتا۔ اس کے ہٹنے سے ہم وہ بے عمل عالم بنے کہ الامان و الحفیظ۔ دانائے راز علامہ محمد اقبال نے فرمایا کہ

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے گھر پر سب سے بڑا ذریعہ ابلاغ ماں تھی جس کی درست کمیونیکیشن سے بچہ اس سادہ نصاب کو زندگی سنوارنے کے لئے کام میں لے آتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بچہ ماں سے دور ہوا اور مکتب اور کتاب میں پناہ لی۔ پھر کتاب بینی ایک مفید اور کار آمد ذریعہ تھا جس میں ہماری تعلیم و تربیت کے تمام ہتھیار موجود تھے۔ اصلاح اور شخصی خوبیوں کے ساتھ ساتھ مستند علمی نقاط سے آشنائی ہوتی تھی، تب ہاتھ میں خالی ڈگری نہیں آتی تھی بلکہ تمام علمی ضروریات کو کتابوں اور تعلیم و تربیت کے ذریعے پورا کیا جاتا تھا۔ پھر استاد کی تربیت تھی جو طالب علم کی شخصیت کو نکھار دیتی۔

وائے افسوس! ہم نے کتاب سے دوستی ترک کر دی۔ اپنے بچوں کو نصیحت کرنے کی روش بھی ترک کر دی۔ اپنے بچوں کی نگہداشت درست نہ کر سکے۔ آج ہمارا بچہ ماضی، جو کہ شان دار تھا سے ناواقف، اپنے حال میں پریشان خیالی کا شکار اور اپنے مستقبل سے ناامید نظر آتا ہے۔ ہمارا کل سرمایہ ہمارے بچے ہیں۔ ہمارے نوجوان ہی ہمارا مستقبل ہیں۔ آج والدین اور خداوندِ مکاتب کے لیے لمحہِ فکریہ ہے کہ ہمارے مطلوبہ اہداف پورے نہیں ہو رہے حالانکہ بچے ذہین ہیں۔ آج کا بچہ سوال کرنا جانتا ہے اور جواب بھی دلیل سے مانتا ہے مگر ہم نے اسے دریا کنارے تشنہ لب رکھا ہوا ہے۔ اس تشنہ کامی نے شاید اقبال جیسے درد مند کو بھی غم زدہ کیا تھا۔

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی، نہ محبّت، نہ معرفت، نہ نگاہ

شیئر کریں
262
2