بشریٰ حسن (لیہ)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی تالاب میں دو مرغابیاں اور ایک کچھوا رہتا تھا۔ وہ تینوں دوست ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔ ایک دفعہ بارش نہ ہوئی اور وہ تینوں بہت پریشان ہوئے۔ چونکہ وہ تینوں پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے لہذا انہوں نے کسی دوسرے تالاب میں جانے کا سوچا۔ مرغابیوں کے چلے جانے کا سوچ کر کچھوا بہت پریشان ہوا۔ اس نے سوچا دوستوں کے بغیر زندگی بے کار ہے۔ اس نے مرغابیوں سے کہا کہ مجھے بھی تم اپنے ساتھ لے چلو۔ کچھوے کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے مرغابیوں کو ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں نے ایک لکڑی لی۔ اس کے ایک سرے کو ایک مرغابی نے جب کہ دوسرے سرے کو دوسری مرغابی نے اپنی چونچ میں دبایا۔ درمیان میں کچھوے نے لکڑی کو منہ میں دبایا اور وہ اڑنے لگے۔ تھوڑی دیر میں وہ ایک آبادی کے اوپر سے گزرے۔ لوگ یہ حیران کن منظر دیکھ کر ہنسنے لگے۔ کچھوے نے جواب دینے کے لیے جونہی منہ کھولا تو وہ دھڑام سے نیچے گر گیا اور مرغابیاں آگے اڑ گئیں۔ پیارے بچو! اس کہانی سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ لوگوں کی ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔