گوہرِ گُم گشتہ

محمد صفدر (بہاول نگر)

وہ بھی کیا دن تھے جب ہماری تہذیب، تمدن، رسوم اور روایات کو اوج کمال حاصل تھا، جیسے ہی کوئی خوشی کا تہوار، مل بیٹھنے کا لمحہ، مسرت کی گھڑی آتی تھی، ہم اپنے پیاروں، دوستوں اور جان پہچان والوں کو رنگ و تازگی سے لبریز پھول، دل موہ لینے والے انعامات، جذبات سے بھرپور جملے اور نیک خواہشات بطور تحفہ پیش کرتے تھے۔ یہ احساسات، جذبات اور نیک خواہشات ہماری ثقافت و معاشرت کا لازمی جزو ہوا کرتے تھے، جن سے ہر خوشی دوبالا اور ہر لمحہ یادگار بن جاتا تھا۔ سماجی اور اقتصادی بدحالی اپنی جگہ لیکن ہماری ان تہذیبی و اخلاقی عادات اور روایات کو نہ جانے کیا ہوا؟ ان کو کس کی نظر کھا گئی؟ کس نے کیوں کر پابندیاں عائد کر دیں؟

ہم اس قدر مصروف اور فضول معمولات کے مقید ہو چکے ہیں کہ ایک میٹھا بول، چند خوب صورت جملے اور ایک یادگاری تحفہ اپنے کسی پیارے کسی دوست، کسی شریکِ سفر کی نذر کرنے سے گھبرائے رہتے ہیں کہ وہ ہماری اس ذرا سی توجہ، چھوٹی سی عنایت کی بدولت چند لمحات، کچھ ساعتوں کے لیے اپنی زندگی کی اُلجھنوں اور مشکلات کو بھلا کر خوشی اور مسرت کا گمان کر سکے۔ ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو جو گم شدہ حقیقت شدّت سے اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے وہ ہماری طرزِ معاشرت اور ثقافت میں رائج تحفہ دینے کا رجحان تھا۔ ایسا تحفہ جو یادگار کی حیثیت رکھتا تھا، جس میں اپنائیت کا احساس مضمر ہوتا تھا۔ وہ تحفہ رشتوں کی مضبوطی کا امین ہوا کرتا تھا۔ یہ منفرد روایت اور مثبت رُجحان دم توڑ چکا ہے۔ ہماری معاشرت اور تہذیب میں قلم، کتاب، ڈائری اور پھول جیسے تحائف جا بجا بکھرے نظر آتے تھے جو نیک خواہشات اور پرمسرت جذبات و احساسات سے بھر پور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ہر دُکھ کا مداوا، ہر خوشی کی لذّت اور موقع کی مناسبت سے جذبات اور مثبت احساسات سے مالا مال ہوا کرتے تھے۔ یہ تحفے اب نایاب ہو چکے ہیں۔

المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارا استاد، ہمارا ناصح، محراب و منبر پر براجمان واعظ اور کھوکھلی شہرت کا متلاشی ادیب اس سے آنکھیں چراتے ہوئے راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہے اور پاکستانی قوم کو اپنے طرز کلام کی کاٹ اور گفتار کی ساحری تعمیر کی بجائے تخریب کے ناسُور میں مبتلا کر رہا ہے۔ موجودہ صورتِ حال اہلِ پاکستان کو اپنے اندر جھانکنے کی دعوتِ عام دے رہی ہے۔ ایسی دعوت کہ ہم اپنی عظمت کی امین روایات سے رُجوع کریں اور اپنی اخلاقی اقدار کو دوبارہ عروج عطا کریں۔ اسی صورت میں مملکت خداداد کی آئندہ نسلیں معاشرے میں پھیلی جابجا مشکلات اور پریشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کر کے دائمی آسودگی اور امن حاصل کر سکتی ہیں۔ ایسا اس وقت ممکن ہے جب ہم  ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے والے بن کر موقع کی مناسبت سے تحفہ دینے کے رجحان کو دوبارہ فروغ دیں گے۔ کیوں کہ تحفہ ایک ایسا گوہرِ گُم گشتہ ہے جو ہر دور میں نفرتوں کو مٹانے اور محبتوں کو پروان چڑھانے کا ذریعہ رہاہے۔ فی زمانہ سب سے عمدہ تحفہ جس کی بہ طور فرد معاشرہ ہر کسی کو ضرورت ہے وہ دعاہے۔

حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ دعا اپنے لیے مانگو تو عبادت اور دوسروں کے لیے مانگو تو خدمت ہے۔ عبادت سے جنت ملتی ہے اور خدمت سے خدا۔ ہم سلام میں پہل کر کے، کسی کی مسرت، خوش حالی، تندرستی، روزگار اور کاروبار کی ترقی کی بابت دعائیہ کلمات کا اظہار کر کے، کسی کی خوشی میں شریک ہو کر چند دعائیہ کلمات ادا کر کے، کسی کے غم میں دل جوئی کر کے اور کسی کی کامیابی پر پھول، کتاب اور قلم کا تحفہ دے کر خوشی کا سامان کر سکتے ہیں، کیونکہ چہرے پر مسکراہٹ سجانا ایک خوب صورت عمل ہے لیکن اپنے کسی عمل کے ذریعے دوسروں کے چہروں پر مُسکراہٹیں بکھیرنا زندگی کو خوب صورت بنانے کے مترادف ہے۔ ہماری ذرا سی کوشش معاشرے میں توازن اور آسودگی کے ساتھ ساتھ رشتوں میںموجود خلیج کو کم کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

شیئر کریں
263
2