انصر رحمان اعوان (بورے والا)
آج والدین اپنے بچوں کی معیاری تعلیم کے سلسلے میں بڑے فکر مند ہیں۔ ان کی فکر مندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے لیے بڑی رقم خرچ کرنےکے لیے تیار ہیں ۔یہاں تک کہ اس کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی بھی کرتے ہیں۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد کیا ان کے بچوں کو معیاری تعلیم مل پا رہی ہے؟ یا معیاری تعلیم کے فرضی دکھاوے، رکھا رکھاؤ اور چمک دمک نے ان کی خواہشات کا صرف استحصال ہی کیا ہے؟ کیا صرف خوب صورت لباس اور عمارتیں ہی معیاری تعلیم ہونے کی دلیل ہیں یا کوئی اور کسوٹی بھی ہے جس کے ذریعے ہم کسی سکول کی تعلیم کو معیاری یا غیر معیاری کہہ سکیں۔ تعلیم کے معیارات کو چانچنا والدین کے لیے ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ اس میدان میں مقابلہ آرائی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں تعلیم میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور تاجر اس کو منافع بخش تجارت سمجھ کر قومی، بین الاقوامی اور اسلامی ناموں کے ساتھ ہر سال نئے نئے تعلیمی ادارے منظر عام پر لا رہے ہیں اور جو دیدہ زیب پمفلٹس، پوسٹرز اور بڑے ہورڈنگز کے ذریعے معیاری تعلیم کا دعویٰ کر کے والدین کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ ایسے حالات میں والدین کے لیے ایک اچھے سکول کا انتخاب ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا معیارات ہو سکتے ہیں جن کے ذریعے یہ معلوم ہو سکے کہ کس سکول کی تعلیم معیاری ہے۔
تربیت یافتہ اساتذہ: اسکول کی عمارت کتنی ہی خوب صورت کیوں نہ ہو ، لیکن اگر وہاں پڑھانے والے اساتذہ تربیت یافتہ اور ماہر نہ ہوں تو معیاری تعلیم ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک ماہر استاد ہی تعلیمی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے۔ طلبہ میں تبدیلی، کردار میں نکھار، صلاحیتوں میں نشوونما اور شخصیت کا ارتقاء ایک اچھے استادہی کی بدولت ہوتا ہے۔ اس لیے سکول کا انتخاب کرتے وقت سب سے زیادہ اس نکتہ پر غور کیا جائے کہ اس سکول کے اساتذہ کیسے ہیں، انتظامیہ ان کے انتخاب اور تربیت پر کتنی توجہ دیتی ہے، تعلیم کے میدان میں ہونے والے نئی تحقیقات سے وہ کتنا واقف ہیں، تدریس کے نئے اصول اور طریقوں کا استعمال وہ کتنا کرتے ہیں، وہ بچوں پر تشددکرنے والے ہیں یا بچوں سے محبت، ہمدردی اور ان کی عزت نفس کا خیال کرنے والے ہیں۔
طریقہ تعلیم: تعلیم کے موثر ہونے اور مطلوبہ معیار پر اترنے کے لیے ضروری ہے کہ طریقہ تعلیم کا جائزہ لیا جائے کہ وہاں پر روایتی انداز میں تعلیم دی جاتی ہے یا جدید طریقہ تعلیم کا استعمال ہوتا ہے؟ اس بات پر غور کیا جائے کہ وہاں رٹانے یا یاد دہانی پر زور دیا جاتا ہے یا مواد کو سمجھانے اور تصورات کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ نکتہ بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ طلبہ اس طریقہ تعلیم کے ذریعہ خوشی محسوس کر رہے ہیں اور ان میں مزید دل چسپی پیدا ہو رہی ہے یا سکول کو وہ مصیبت سمجھ رہے ہیں۔ تعلیم اور دل چسپی ایک سکے کے دو رخ ہیں اور ان دونوں میں سمجھ بوجھ کی خلیج حائل ہے۔ وہ جتنا مواد کو سمجھیں گے اتنی ہی ان کے اندر دل چسپی پیدا ہوگی۔
تحقیق اور وسائل: ایک معیاری سکول کے ترکیبی عناصر میں اس سکول کے طلبہ کو دیے جانے والے تحقیقی کام اور اموزشی وسائل شامل ہیں۔ یہ سرگرمیاں جتنی تخلیقی ہوں گی ، اتنا ہی طلبہ میں تحقیقی سوچ اور خود اکتسابی کی صلاحیت پیدا ہوگی اور تعلیم کا عمل نصابی کتابوں سے نکل کر معاشرے میں پھیل جائے گا۔ آج عام طور پر طلبہ کو ایسے تحقیقی کام دیے جاتے ہیں جو کسی کتاب ،اخبار یا انٹرنیٹ پر آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں ۔ اس عمل میں ذہنی اور تحقیقی پہلو بہت کم ہوتا ہے۔ لیکن ایک معیاری سکول اس نکتے کو بہت اہمیت دیتا ہے اور طلبہ کو اس کام میں اتنا مشغول کر دیتا ہے کہ کم عمر میں ہی وہ نئی سوچ کے مالک بن جاتے ہیں۔ اس تحقیقی کام میں مدد کے لیے چند اموزشی وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے ان میں لائبریری سب سے اہم ہے۔ ایک معیاری سکول میں لائبریری ایک بنیادی ضرورت ہے جس سے طلبہ میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ فکری وذہنی صلاحتیں پروان چڑھتی ہیں اور وہ غور وفکر کے عادی بنتے ہیں۔
صحت مندانہ ماحول: ایک اہم نکتہ جو معیاری سکول کے لیے ضروری ہے وہ اس سکول کا بچوں کی صحت پر توجہ دینا ہے کیوں کہ تعلیم ایک ہمہ جہتی عمل ہے جس میں صحت وتندرستی بھی تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے۔ صحت ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اور اچھے دل ودماغ کے لیے ضروری ہے۔ ہر روز کھیل کے لیے ایک گھنٹہ مختص ہونا چاہیے۔ کھیل سے طلبہ کی نہ صرف صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ ان میں مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ لیڈرشپ کی صلاحیت اور ٹیم اسپرٹ کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔
دوسرے اداروں کے ساتھ اشتراک وتعاون: سکول کو مزید بہتر اور معیاری بنانے کے لیے دوسرے اداروں کے ساتھ اشتراک وتعاون اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ذریعے ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ طلبہ واساتذہ میں مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوسکتا ہے۔ ایک دوسرے کے پاس موجود ماہرین سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اس کا ادراک نہیں کریں گے تو خود کو ہی بہترین سمجھ کر اپنے آپ پر ترقی کا دروازہ بند کرلیں گے۔آج کا دور اجتماعیت کا دور ہے۔ اس سے کم توانائی میں زیادہ نتائج آتے ہیں۔ کسی ملکی یا عالمی تعلیمی ادارے سے الحاق کیا جائے تو تعلیمی ادارے کو ایک معیاری تعلیمی ادارہ بنانے میں مدد ملتی ہے۔
تشخیصی نظام: کسی بھی سکول کے معیاری بننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا تشخیصی نظام مستعد ہو۔ اس میں ہر کلاس کے بعد کے جائزے سے لے کر تمام ٹسٹ اور امتحانات شامل ہیں۔ مسلسل اور جامع تشخیص کے ذریعے یہ دیکھا جاتا ہے کہ طلبہ نے اسباق کو کتنا سمجھا ہے اور وہ ان میں موجود تعلیمی مقاصد کو کتنا حاصل کر پائے ہیں۔ لیکن یہ جانچ صرف طلبہ کی نہیں ہوتی بلکہ اساتذہ اور سکول کی بھی ہوتی ہے کہ وہ کتنے طلبہ تک تعلیمی مقاصد کو پہنچانے میں کتنا کامیاب ہوئے ہیں اوراس کے لیے وہ کیا منصوبہ بناتے ہیں اور کس طرح اس کو نافذ کرتے ہیں۔ اس کے بعد پھر تشخیص وجائزے کا عمل ہوتا ہے اور دیکھا جاتا ہے وہ اس کوشش میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔ اصل میں کمزور بچوں کو آگے لانے کا میکانزم جس سکول میں ہوگا وہی ایک معیاری سکول کہلائے گا۔ اس مقصد کے لیے ہر سکول میں ایک جائزہ کمیٹی ہونی چاہیے جو تمام امور کی نگرانی کرے۔ ہر چھ ماہ میں سکول کا جائزہ ہو۔ تمام تعلیمی سرگرمیوں ،اساتذہ اور وسائل کی جانچ ہو کہ وہ کتنے موثر ثابت ہوئے ہیں اور کتنے تعلیمی مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔ جائزے کے بعد پھر ایک ایسا منصوبہ بنے جو اگلے جائزے تک نافذ العمل رہے۔ اس طرح ایک سکول اپنی کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے ایک معیاری سکول بن سکتا ہے۔