وزیر کی عقل مندی

عروہ بتول محفوظ ( بہاول پور)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ بہت نیک دل اور انصاف پسند تھا۔ وہ اپنی رعایا سے بہت پیار کرتا تھا۔ ایک دن ایک شخص بادشاہ کے پاس گیا اور انصاف کے لیے دہائی دینے لگا۔ وہ کہنے لگا کہ میں اور میرا مالک جا رہے تھے کہ مجھے ایک تھیلی ملی جس میں ہیرے تھے۔ میں نے مالک سے کہا کہ یہ ہمیں سرکاری خزانےمیں جمع کرا دینے چاہئیں۔ میرے مالک نے کہا کہ ہم ایک ایک ہیرا رکھ لیتے ہیں۔ میرے دل میں لالچ آ گیا لیکن اب میرا مالک مجھے ہیرا نہیں دے رہا۔ بادشاہ نے اس کے مالک کو بلوایا تو اس نے کہا کہ ہمیں ہیرے ملے ضرور تھے لیکن میں نے یہ ہیرے اسے آپ کو دینے کے لیے دیے تھے، اب یہ لالچی ہو گیا ہے، اس لیے جھوٹ بول رہا ہے۔ آپ چاہیں تو میرے ان دو نوکروں سے پوچھ لیں جو ہمارے ساتھ تھے۔ دونوں نوکر بولے ہمارا مالک سچ کہہ رہا ہے ۔

بادشاہ نے کہا تم سب کل آنا تمہارا فیصلہ کل کیا جائے گا۔ ان کے چلے جانے کے بعد بادشاہ نے اپنے وزیر خاص کو بلایا اور اسے کہا کہ کل تک پتا لگاؤ کہ کون جھوٹ بول رہا ہے۔ بادشاہ کا وزیر بہت عقل مند تھا۔ اس نے باری باری تمام نوکروں کو بلوایا۔ وزیر نے پہلے نوکر سے کہا کہ ہیرے تمہارے سامنے دیے گئے تھے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ وزیر نے کہا کہ بتاؤ ہیرے کس طرح کے تھے۔ نوکر نے کہا کہ وہ ایک تھیلی میں تھے، اس وجہ سے میں نے ہیروں کو نہیں دیکھا۔ وزیر نے دوسرے نوکر کو بلایا اور اس سے بھی یہی سوالات کیے۔ دوسرے نے کہا کہ ہیرے گول تھے۔ وزیر نے رات بھر ان کی نگرانی کروائی۔ وزیر کو سمجھ آ گئی کہ ان کا مالک جھوٹ بول رہا ہے۔ صبح وزیر نے بادشاہ کو احوال سے آگاہ کیا کہ ان کا مالک جھوٹ بول رہا ہے۔ مالک نے بھی تسلیم کیا کہ وہ غلط بیانی کر رہا تھا۔ بادشاہ نے مالک کے نوکر کو ایک ہزار اشرفیاں انعام دینے کا اعلان کیا اور بقیہ پانچ ہزار اشرفیاں قومی خزانے میں جمع کرانے کی ہدایات دیتے ہوئے مالک کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالنے کا حکم سنایا۔

پیارے بچو ہمیں بھی جھوٹ سے بچنا چاہیے، اس سے عزت بھی خراب ہوتی ہے، رسوائی بھی مقدر ہوتی ہے اور زمانے کی نظروں سے بھی انسان گر جاتا ہے ۔

شیئر کریں
1096
10