کرپشن وائرس کی تباہ کاریاں

صابر ندیم  (ملتان)

کرپشن وہ خاص مرض ہے جو معاشرے کے اہم اداروں پر حملہ آور ہوتا ہے اور پھر معاشرے میں اتنی سکت نہیں رہتی کہ وہ دیگر برائیوں کا مقابلہ کر سکے۔ ایڈز کے وائرس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے حملے کے بعد جسم کا مدافعتی نظام ختم ہو جاتا ہے اور مریض پھر کسی معمولی سی بیماری سے بھی صحت مند نہیں ہو سکتا، حتیٰ کہ بخار جیسا مرض بھی جس سے مریض دو گولیاں استعمال کر کے ٹھیک ہوجاتا تھا، اب یہ گولیاں اُسے فائدہ نہیں دیتیں۔ بالکل اسی طرح کرپشن بھی ایک ایسا معاشرتی مرض ہے جو معاشرے کے سارے نظام مدافعت کو تہس نہس کردیتا ہے۔ پاکستان پر کرپشن وائرس کا بھر پور حملہ ہوچکا ہے،  یہاں تک کہ اب ہمارے یہاں کوئی ادارہ ایسا دکھائی نہیں دیتا جسے کرپشن نے مفلوج نہ کردیا ہو۔

ایک وقت تھا جب افسر شاہی کی محض نچلی سطح بدنام ہوتی تھی پھر کوئی اوپربھی کرپٹ مشہور ہوا۔آج کل کرپشن کے سلسلے میں یہ کہا جاتا ہے کہ بتائیے کون کرپٹ نہیں۔ پٹواری اپنے محکمے میں آج بھی مختار کل اورحرف آخر ہے۔ پولیس کے متعلق بات بگڑتے بگڑتے یہاں تک جاپہنچی کہ اب ڈاکے  بھی اس سے پوچھ کر ڈالے جاتے ہیں۔ عدالتوں میں تاخیر توپہلے  تھی ہی، اب انصاف بھی سرعام بکنے لگا ہے اور انصاف کے سود اگر دن دیہاڑے اپنا مذ موم کاروبار بے خوف و خطر چلا رہے ہیں۔ صحافی نے بھی اپنے قلم کو ارزاں کر دیا ہے، ہمارے عوامی نمائندوں  کی بات سب سے انوکھی ہے۔ جن رقوم کی انہیں گنتی نہیں آتی تھی وہ رقم انہوں نے اپنے کمیشن میں کمائی۔

ایک جمہوری معاشرے میں عام طور پر مملکت کو تین امور یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ پر مشتمل سمجھا جاتا ہے لیکن اب پولیس کے اختیارات کو بھی امور مملکت میں ایک ستون شمار کیا جاتا ہے۔ ان مذکورہ امور میں کرپشن ایڈز کے وائرس کی طرح سرایت کرچکی ہے ۔ ایسی صورت حال کو ہمارے ترک بھائی ایک عجیب و غریب کہاوت کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جس طرح مچھلی اپنے سر سے گندہ ہونا شروع کرتی ہے اسی طرح معاشرہ بھی اوپر سے کرپٹ ہونا شروع ہوتا ہے۔

شیئر کریں
258
2